الْقَاتِلَ۔))[1]
’’یعنی اس میں بیٹھا رہنے والا کھڑے رہنے والے سے بہتر ہے اور کھڑا رہنے والا چلنے والے سے بہتر ہے اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہے، اگر تم اس میں پڑ جاؤ تو اے عبداللہ تم مقتول ہونے کو ترجیح دو گے، قاتل بننے کو نہیں ۔‘‘
پھر انھوں نے ان کو اور ان کی ایک لونڈی کو پکڑ لیا اور آگے بڑھتے ہوئے ایک نخلستان میں کھجور کے درخت سے گرا ہوا ایک پھل اٹھا کر ان میں سے ایک نے کھا لیا، اس پر دوسرے ساتھیوں نے اعتراض کیا اور کہا کہ یہ معاہد کا پھل ہے بغیر مالک کی اجازت کے تم نے کیوں کھا لیا؟ چنانچہ اس نے اپنے منہ سے کھجور اگل دیا، پھر وہ لوگ ایک خنزیر کے پاس سے گزرے، ان میں سے ایک نے اسے اپنی تلوار سے مار دیا، دوسروں نے کہا: یہ کسی معاہد کی خنزیر ہوسکتی ہے، تم نے اسے کیوں مار ڈالا؟ پھر عبداللہ بن خباب نے کہا: کیا میں تمھیں وہ بات نہ بتاؤں جسے تمھاری نگاہوں میں ان چیزوں سے زیادہ مقدس اور قابل احترام ہونا چاہیے؟ انھوں نے کہا: ضرور بتاؤ، آپ نے کہا: میں ، میں مسلمان ہوں ، میں نے اسلام میں کوئی بدعت نہیں ایجادکی ہے اور آپ لوگوں نے مجھے امان دی ہے اور کہا ہے کہ گھبراؤ نہیں ۔ لیکن پھر بھی ان لوگوں نے اس شخص کو نہر پر لے جاکر اس کی گردن اڑا دی۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے اس کے خون کو پانی میں جم کر ایسے ہی تیرتے ہوئے دیکھا کہ جیسے پانی میں سڑ جانے والے جوتے کا تسمہ بہتا ہوا نگاہوں سے غائب ہوجائے، پھر انھوں نے عورت کو بلایا، وہ حاملہ تھی، انھوں نے اس کا پیٹ چاک کردیا۔ راوی کا بیان ہے: میں نے ان سے مبغوض ترین لوگوں کا کبھی ساتھ نہ دیا تھا، اس لیے مجھے جو نہی موقع ملا ان سے نکل بھاگا۔[2]
خوارج کی اس دیدہ دلیری نے لوگوں میں دہشت کا ماحول پیدا کردیا، حاملہ عورت کا پیٹ چاک کردینا اور بکری کی طرح عبداللہ کو ذبح کردینا کوئی معمولی بات نہ تھی، انھوں نے اسی پر بس نہ کی بلکہ لوگوں کو قتل کی دھمکیاں بھی دینے لگے، ان کی اس شناعت کو دیکھ کر خود انھیں میں سے کچھ نے اسے برا سمجھا اور کہا کہ تمھارا برا ہو، اس لیے ہم نے علی کو چھوڑ کر تمھارا ساتھ نہ دیا تھا۔[3]
|