وصیت نامہ کی تحریر پرزور دینے سے منع کیا اور وہ مصلحت یہ تھی کہ مرض کی شدت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ لکھوانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر شفقت اور محبت کے خلاف اور ایک نامناسب عمل ہے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض کی شدت کو جن الفاظ میں تعبیرکیاہے وہ آپ کے اجتہاد کے برمحل اور درست ہونے کی قوی دلیل ہے۔ آپ نے فرمایاتھا: ((إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم قَدْ غَلَبہُ الْوَجَعُ۔)) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت تکلیف سے دوچار ہیں ، لہٰذا مناسب نہیں ہے کہ ایسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید پریشانی اور تکلیف میں ڈالا جائے،[1] ساتھ ہی آپ کے ذہن میں یہ آیت کریمہ بھی گردش کررہی تھی۔
﴿ مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ﴾ (الأنعام : ۳۸)…
’’ہم نے کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی۔‘‘
اور ارشاد الٰہی ہے:
﴿ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ﴾ (النحل : ۸۹)
’’اور ہم نے تجھ پر یہ کتاب نازل کی، اس حال میں کہ ہر چیز کا واضح بیان ہے ۔‘‘
علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : شارحین حدیث نے عمر رضی اللہ عنہ کی اس رائے کو بالاتفاق ان کے تفقہ فی الدین کے دلائل، مناقب وفضائل اور دقت نظری میں شمار کیا ہے۔ [2]نیز واضح رہے کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ وصیت نامے کی عدم تحریر پرزور دینے میں ایک مجتہد تھے اور ’’مجتہدفی الدین‘‘ کی غلط رائے بہرحال قابل عفو ہے، بلکہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ((إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَہَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَہُ أَجْرَانِ وَإَِذا حَکَمَ فَاجْتَہَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَہُ أَجْرٌ)) [3] کے مطابق اسے ثواب بھی ملتا ہے۔ تو آپ کو اس سلسلے میں کیوں متہم کیا جاتا ہے، جب کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اجتہاد کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نہ کوئی مذمت کی، نہ گناہ گار کہا، بلکہ اپنے عمل سے اس کی موافقت ہی کی، بہرحال اس واقعہ کے سہارے روافض صحابہ کے خلاف جو بھی بد زبانی اور طعن کرتے ہیں وہ سب غلط ہے، اور اس سے ان کی حقیقت سامنے آجاتی ہے۔[4]
|