ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس واقعہ سے بہت پہلے بالکل واضح اور معروف طریقے سے آپ کو امامت کے لیے نامزد کیا جا چکا ہے، ایسی صورت میں آپ کے استحقا ق کے اثبات کے لیے کسی وصیت نامے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی۔‘‘ [1]
۵۔ اس حدیث کے حوالے سے روافض عمر رضی اللہ عنہ پر طعن کرتے ہیں ، ان کا کہنا ہے عمر ( رضی اللہ عنہ ) نے ’’أَھَجَرَ‘‘ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بے معنی کلام کرنے کی تہمت لگائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ سنی، اور کہا کہ ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ’’أَھَجَرَ‘‘ کے لفظ کے نسبت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف کرنا یکسر غلط اور باطل ہے۔ یہ بات اس موقع پر جو لوگ حاضر تھے ان میں سے کس نے کہی تھی؟ صحیحین کی روایات سے اس کے قائل کی تعیین نہیں ہوتی، کیونکہ اس کے الفاظ ((فَقَالُوْا: مَاشَأْنُہُ أَھَجَرَ))میں قائل کے لیے جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے، لہٰذا عمر رضی اللہ عنہ کو اس کا قائل نہیں مانا جاسکتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’میرے خیال میں ایک تیسرا احتمال راجح ہے جسے قرطبی نے ذکر کیا ہے۔ وہ یہ کہ ایسی بات کسی ایسے شخص نے کہی ہوگی جو نو مسلم رہا ہوگا، اور وہ پہلے سے جانتا رہا ہوگا جو شخص سخت مصیبت اورالجھن سے دوچار ہوتاہے وہ اس وقت میں اپنا اصلی مقصد اچھی طرح سے تحریر نہیں کرواپاتا۔‘‘[2]
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’یہ کہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات عمر رضی اللہ عنہ نے کہی تھی جب کہ اکثر روایات میں قائل کے لیے جمع کا صیغہ ’’قَالُوْا‘‘ واردہوا ہے۔‘‘[3]
درحقیقت اس سلسلے میں روایات جو صحیح اور ثابت ہیں اس میں یہ کلمہ صیغۂ استفہام کے ساتھ یعنی ’’أَھَجَرَ‘‘
وارد ہے او رجن روایات میں ’’ہَجَرَ‘‘ یا ’’یَھْجِرُ‘‘ کے الفاط ہیں ، وہ روایات محدثین وشارحین حدیث مثلاً قاضی عیاض،[4] قرطبی،[5] نووی،[6] اور ابن حجر [7]وغیرہ کے نزدیک مرجوح ہیں ۔
ان محدثین نے صراحتاً یہ بات لکھی ہے کہ حاضر ین مجلس میں سے جب کسی نے کہا کہ نہ لکھو[8] تو ’’أَھَجَرَ‘‘ کے قائل نے استفہام انکاری کا یہ صیغہ استعمال کیا۔[9]
امام قرطبی رحمہ اللہ نے تبلیغ دین اور دیگر تمام احوال میں غلطیوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت اور اس پر صحابہ کے اتفاق کے دلائل کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت بیماری کی حالت میں آپ
|