ان سے ابن شہاب نے اور ان سے ابن مسیب نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قبیلۂ اسلم کے ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ۔ اس سے چند صحابہ نے کہا: تمہیں اسے لوٹانے کا اختیار ہے۔ چنانچہ اس کی بیوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: میرے شوہر نے ایک ہی کلمہ میں تین طلاقیں دے دی ہیں ، (اب میں کیا کروں ؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:
(( قَدْ بَنْتِ مِنْہُ وَلَا مِیْرَاثَ بَیْنَکُمَا۔)) [1]
’’تم اس سے جدا ہوگئی، تم دونوں کے درمیان کوئی میراث نہیں ۔‘‘
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کلمہ میں دی جانے والی تین طلاقوں کو تین شمار کیا۔
۲: امام نسائی نے اپنی سند سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدمی کے بارے میں خبر دی گئی کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک ساتھ دے دی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت سخت غصہ ہوئے اور فرمایا:
(( اَیَلْعَبُ بِکِتَابِ اللّٰہِ وَاَنَا بَیْنَ اَظْہُرِکُمْ۔))
’’کیا اللہ کی کتاب سے کھلواڑ کیا جائے گا، حالانکہ میں تمہارے درمیان (ابھی موجود) ہوں ۔‘‘
یہ سن کر ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہا: ’’اے اللہ کے رسول کیا میں اسے قتل نہ کر دوں ؟‘‘ [2]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس آدمی نے ایک ہی لفظ میں تین طلاقیں ایک ساتھ دے دی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بہت سخت ناراض ہوئے اور اس کو ڈانٹا۔ پس آپ کی ناراضی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ طلاقیں واقع ہوگئی تھیں ، کیونکہ وہاں بیان اور وضاحت کی ضرورت تھی، اگر وہ واقع نہ ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ضرور بیان کرتے اور اصول فقہ کا یہ قاعدہ بھی ہے کہ جس مقام ووقت پر بیان ووضاحت کی ضرورت ہو اسے بلا کسی مجبوری کے وہاں سے مؤخر کرنا درست نہیں ہے۔ [3]
|