اس کی بکواس میں سے یہ ہے کہ اس نے نماز سے سجدوں کو ختم کر دیا اور اس کا یہ زعم تھا کہ آسمان سے اس پر وحی آتی ہے اور اس کی مسجع عبارتوں میں سے یہ عبارت ہے جسے وہ وحی الٰہی کہتا تھا:
((والحمام والیمام، والصرد الصوام، قد صُمْنَ قبلکم باعوامٍ، لیبلغن ملکنا العراق والشام۔))
’’اور کبوتر اور جنگلی کبوتر اور روزہ دار لٹورے تم سے بہت سال قبل روزہ رکھتے ہیں ۔ عراق و شام تک ہماری بادشاہت ہو گی۔‘‘[1]
یہ شخص غرور نفس کا شکار ہوا، اس کا مسئلہ زور پکڑا، اس کی طاقت بڑھی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے ضرار بن ازور اسدی رضی اللہ عنہ کو اس سے قتال کے لیے روانہ کیا لیکن ضرار کے بس کی بات نہ تھی۔ اس کی قوت وقت کے ساتھ بڑھ چکی تھی اور خاص کر اسد و غطفان دونوں حلیفوں کے اس پر ایمان لے آنے کے بعد۔[2]
دائرۃ المعارف الاسلامیہ (اسلامی انسائیکلوپیڈیا) نے اس سلسلہ میں غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کہا ہے:
’’یہ برجستہ شعر کہتا تھا اور میدان قتال میں بغیر تیاری کے خطاب کرتا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جاہلی قبائلی زعیم کا حقیقی آئیڈیل تھا۔ اس کے اندر بہت سی صفتیں جمع تھیں ، عراف تھا، شاعر تھا، مقرر تھا، مقاتل تھا۔‘‘[3]
اس عبارت سے اس مشہور انسائیکلوپیڈیا کی طرف سے طلیحہ اسدی کی مدح سرائی کی بو آتی ہے کیونکہ یہ اس کی نگاہ میں مثالی قبائلی زعیم تھا، برجستہ شعر کہتا اور خطاب کرتا تھا اور اس وقت عرب ان دونوں صفات کے بڑے دلدادہ تھے۔ اس انسائیکلوپیڈیا کی طرف سے یہ مدح سرائی کوئی نئی بات نہیں کیونکہ اس کا تو شیوہ ہی اسلام پر تنقید اور طعنہ زنی کرنا ہے۔ خواہ اسے یہ معلوم ہو یا نہ ہو کہ طلیحہ نے توبہ کی اور اسلام قبول کیا اور اچھے مسلمان کی طرح زندگی گذاری۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور طلیحہ کا مسئلہ باقی رہا، [4] اور خلافت کی باگ ڈور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سنبھالی، مرتدین کو کچلنے کے لیے فوج تیار کی، قائدین مقرر کیے۔ طلیحہ اسدی کی طرف بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں فوج روانہ کی۔ امام احمد رحمہ اللہ کی روایت ہے…… جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید کو مرتدین سے قتال کے لیے مقرر کیا تو فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ فرما رہے تھے:
|