Maktaba Wahhabi

385 - 492
مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً ﴾ ’’ اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمھارے لئے تمھاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کر سکو۔اور اس نے تمھارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کردی۔‘‘[1] اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے خاوند بیوی کے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کردی ہے جس کی بدولت وہ ایک دوسرے کو چاہتے ہیں ، ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرتے ہیں ، ایک دوسرے کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں اور ہر طرح سے ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔اور یہ محبت وہمدردی ایسی ہے کہ جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (لَمْ یُرَ لِلْمُتَحَابَّیْنِ مِثْلُ النِّکَاحِ) ’’ نکاح کرنے والے جوڑے کے درمیان جو محبت ہوتی ہے اس جیسی محبت کسی اور جوڑے میں نہیں دیکھی گئی۔‘‘ [2] اور جہاں تک نکاح کی اہمیت کا تعلق ہے تو اسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آدھا دین قرار دیا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إِذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ نِصْفَ الدِّیْنِ ، فَلْیَتَّقِ اللّٰہَ فِیْ النِّصْفِ الْبَاقِیْ) ’’ ایک بندہ جب شادی کرلیتا ہے تو وہ آدھا دین مکمل کر لیتا ہے۔ اس لئے اسے باقی نصف کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے۔‘‘ دوسری روایت میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں: (مَنْ رَزَقَہُ اللّٰہُ امْرَأَۃً صَالِحَۃً فَقَدْ أَعَانَہُ عَلٰی شَطْرِ دِیْنِہٖ ، فَلْیَتَّقِ اللّٰہَ فِیْ الشَّطْرِ الْبَاقِی) ’’ جس آدمی کو اللہ تعالیٰ نیک بیوی دے دے تو اس نے گویا آدھے دین پر اس کی مدد کر دی۔لہذا وہ باقی نصف دین میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔‘‘[3] اس حدیث میں ’’ نیک بیوی ‘‘ کا ذکر ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نیک بیوی عطا کردے توگویا اس نے اس کیلئے آدھا دین آسان فرما دیا اور اس پر عملدر آمد کیلئے اس نے اس کی مدد کردی۔ نیک بیوی سعادتمندی کی نشانی نیک بیوی کا حصول یقینا بہت بڑی نعمت ہے۔اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک بیوی کو انسان کی سعادتمندی کی
Flag Counter