Maktaba Wahhabi

366 - 492
۲۔نفاقِ اکبر ایک سچے مومن سے صادر نہیں ہوسکتا ، جب کہ مومن سے نفاقِ اصغر کا صادر ہونا ممکن ہے۔ ۳۔ نفاقِ اکبر کا مرتکب اگر اسی حالت میں مر جائے تو وہ ہمیشہ کیلئے جہنمی ہے۔جبکہ نفاقِ اصغر کا مرتکب اگر بغیر توبہ کے مر جائے تو قیامت کے روز اس کے بارے میں اﷲ تعالیٰ جیسے چاہے گا فیصلہ فرمائے گا۔ہو سکتا ہے کہ اسے عقیدۂ توحید کی بناء پر اپنے فضل وکرم سے معاف کرکے جنت میں داخل کردے اور ہو سکتا ہے کہ اسے پہلے جہنم میں داخل کرکے اس کو اس کے گناہوں کی سزا دے ؛ پھر اسے جنت میں داخل کرے۔ عزیز بھائیو ! ’نفاق ‘ نہایت ہی خطرناک مرض ہے۔جو لوگ اِس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں اﷲ تعالیٰ ان کے مرض میں اور اضافہ کردیتا ہے۔اس کا فرمان ہے:﴿ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ ﴾ ’’ ان کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے تو اﷲ نے ان کی بیماری کو اور بڑھادیا اور جو وہ جھوٹ بک رہے ہیں اس کے عوض ان کو قیامت کے دن دردناک عذاب ملے گا۔‘‘[1] یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نفاق سے بہت زیادہ ڈرتے رہتے تھے۔ ابن ابی ملیکۃ کہتے ہیں:(أَدْرَکْتُ ثَلَاثِیْنَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم کُلُّہُمْ یَخَافُ النِّفَاقَ عَلٰی نَفْسِہِ) ’’ میں نے تیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پایا جن میں سے ہر ایک کو اپنے اوپر نفاق کا خوف تھا۔‘‘[2] اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جناب حذیفۃ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کرتے تھے کہ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام منافقوں میں لیا تھا ؟ یہ کون ہیں ؟ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ! جوجس راستے پر چلتے تھے تو شیطان بھی اس راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلا جاتا تھااور جنھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی طور پر دعا کرکے اللہ تعالی سے طلب کیا تھا اور جنھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے کر جنت کی بشارت سنائی تھی ، وہ اس بات سے ڈرتے تھے کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام منافقوں میں تونہیں لیا تھا ! اگر ان صحابۂ کرام کو اپنے اوپرنفاق کا اِس قدر خوف تھا تو ہمیں تو اور زیادہ ڈرنا چاہئے کہ کہیں ہمارے اندر منافقت تو نہیں ہے ! اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں منافقوں کا پردہ فاش کیا ہے ، انکے بھیدوں کو طشت از بام کیا ہے اور اپنے بندوں کو
Flag Counter