Maktaba Wahhabi

35 - 492
اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(مَا أَکَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ خَیْرًا مِّنْ أَنْ یَّأْکُلَ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ ، وَإِنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ دَاؤُدَ کَانَ یَأْکُلُ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ) ’’ کسی شخص نے کبھی اُس کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں کھایا جو وہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتا ہو۔اور اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام(باوجود بادشاہ ہونے کے)اپنے ہاتھ کی کمائی سے ہی کھایا کرتے تھے۔‘‘[1] 18۔ اسلام حلال کمانے کا حکم دیتااور ہرناجائز طریقے سے مال کھانے سے روکتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ ﴾ ’’ اے ایمان والو ! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ ، ہاں تمھاری آپس کی رضامندی سے خریدو فروخت ہو(تو ٹھیک ہے)‘‘[2] اس آیت کریمہ میں(بِالْبَاطِلِ)یعنی ناجائز طریقے سے مال کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ اور اس میں ہر ناجائز اور ناحق طریقہ شامل ہے مثلا چوری کرنا ، کسی کا مال غصب کرنا ، خرید وفروخت میں دھوکہ اور فریب کرنا، ڈاکہ زنی کرنا، سودی لین دین کرنا ، امانت میں خیانت کرنا ، جوے بازی کرنا اور حرام چیزوں کی تجارت کرنا وغیرہ۔ 19۔ اسلام جہاں مال کمانے کے اصول متعین کرتا ہے وہاں اسے خرچ کرنے کے قواعد وضوابط سے بھی آگاہ کرتا ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿ وَ لَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا ﴾ ’’ اور نہ تو آپ اپنا ہاتھ گردن سے باندھ کر رکھیں اور نہ ہی اسے پوری طرح کھلا چھوڑ دیں ، ورنہ خود ملامت زدہ اور درماندہ بن جائیں گے۔‘‘[3] یعنی نہ تو کنجوسی کریں اور نہ ہی فضول خرچی کریں بلکہ میانہ روی اختیار کریں۔جیسا کہ اللہ تعالی عباد الرحمن کی ایک صفت یوں بیان کرتے ہیں: ﴿وَالَّذِیْنَ اِِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا ﴾ ’’ اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ ہی بخل کرتے ہیں۔بلکہ ان کا خرچ ان دونوں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔‘‘[4]
Flag Counter