Maktaba Wahhabi

62 - 83
(تحریک آزادی ہند اور مسلمان حصہ دوم ص 234) اگر کوئی صاحب ووٹ کا مطلب سمجھنے کی بابت مغرب کی محتاجی کے روادار نہیں تو بھی یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس نظام باطل میں کوئی انسان یا انسانوں کا گروہ طاغوتی مناصب پر از خود اپنا تقرر نہیں کرتا۔سوال یہ ہے کہ وہ کونسا عمل ہے جو ایک انسان کو عام حیثیت سے بلند کرکے خدائی کے مرتبے پر فائز کر دیتا ہے؟وہ کونسی فارمیلٹی ہے جو معبودوں کی خالی آسامیاں پر کر دیاکرتی ہے؟وہ کیاچیز ہے جو طاغوت کو زندگی اور وجود بخشتی ہے کہ اگر یہ نہ ہوتو طاغوت کو اپنی ولادت کے لئے کوئی اور ’’ناجائز‘‘طریقہ اپنانا پڑے؟وہ کونسا عمل ہے جو الوہیت کے کچھ خصائص آسمان سے اتار کے پانچ سال کے لئے زمین پر ایوان پارلیمنٹ میں محبوس کر دیتا ہے ؟کس بل بوتے پر کچھ انسانوں میں مالک الملک کے حق حاکمیت کو پانچ سال تک غصب کئے رکھنے کی آئینی اہلیت پیدا ہوجاتی ہے؟ ان سوالات کا جواب تو کچھ بھی مشکل نہیں مسئلہ ان کے بارے میں سوچنے کی زحمت کا ہے کہ کسے اللہ کی عظمت و وقار اور اس کی ہیبت و جلال نے ان سوالات کے بارے میں پریشان کیاہے؟کس کی جبین نیاز کے سجدوں میں ایسی تڑپ ہے کہ وہ اپنے مالک کی اس بغاوت پر تکلیف محسوس کرنا تو کچھ بھی نہیں دنیا کو الٹ دینے کے لئے تیار ہوجائے؟کس کے دل میں اپنے سجدوں اور ریاضتوں کے یکتا و تنہا مالک کے لئے اتنی غیرت موجود ہے کہ ان سوالوں پر اس کا خون کھول اٹھے؟کسے جہنم کا اتنا خوف لاحق ہے کہ وہ معاشرے میں رائج اس شرک اور ہلاکت کے راستے کو ذرا اس نظر سے بھی دیکھ لے ؟عقیدہ توحید کا حقیقی شعور رکھنے والے جانتے ہیں کہ انبیاء کے منہج میں صرف صحیح سوال اٹھانا اوران زندہ ترین سوالوں کے سامنے انسانی ضمیر کو لاکھڑا کرنا ہی وقت طلب مسئلہ رہا ہے پھر ہلاکت سے نجات کی تلاش شروع ہوجائے تو جواب انسان کے اندر ہی
Flag Counter