Maktaba Wahhabi

56 - 83
سیکولرازم کی وضاحت میں ہم نے یہی بیان کرنے کوشش کی ہے کہ کافر نظام میں تمام احکام اور قوانین کا الٰہی شریعت سے سو فیصد برعکس اور متصادم ہونا ضروری نہیں بلکہ شریعت کا پارلیمنٹ کی دہلیز سے اجازت نامہ حاصل کرنے کی شرط ہی اس کے طاغوت ہونے کے لئے کافی ہے۔ جب پارلیمنٹ یا انگریزی قانون کسی اسلامی حکم کو شرف قبولیت بخش کے اسے قانون کے مرتبے پر فائز کرے تو اس کے اگلے لمحے اس کی جو اطاعت واجب ہو جائے گی وہ اللہ کی شریعت کی نہیں پارلیمنٹ اور اس کے قانون کی اطاعت ہو گی۔بھلا بتائیے اگر پارلیمنٹ مزدوروں کے کسی مطالبے کی منظوری میں قانون پاس کر دے تو اس کے بعد اس قانون کے سامنے جو سر جھکیں گے وہ مزدوروں کی اطاعت شمار ہو گی یا پارلیمنٹ کی؟ اسلام میں اصل مسئلہ اتھارٹی کا ہے۔ذرا سوچئے یہ قوانین تو پھر بھی انسانوں کے ناقص دماغوں کی پیداوار ہیں اگر کوئی آج کے دور میں اصلی تورات یا انجیل کے احکام کو بھی قانونی حیثیت دیدے تو اس کے کفر میں کیا شک ہے جبکہ وہ اللہ کے احکام پر مبنی ہیں اور انگریزی قوانین کی بہ نسبت اسلام سے کہیں زیادہ مماثلت رکھتے ہیں۔مگر اللہ تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرائے بغیر ماننے والا نہیں۔یہاں تو موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام آجائیں تو ان کو بھی پیروی اور صرف پیروی کئے بنا چارہ نہیں،پارلیمنٹ کیا چیز ہے جس کے قوانین اسلام سے ’’ملتے جلتے‘‘ ہونے کی بنا پر امت مسلمہ پر تو لوگو کئے جائیں مگر خود اسے مالک الملک کے سامنے ناک رگڑنے سے مستثنیٰ رکھا جائے۔ ﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾(النسآء:65) ’’نہیں،اے محمد!تمہارے رب کی قسم،یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں،پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی تک نہ محسوس کریں بلکہ سربسر تسلیم کریں۔‘‘
Flag Counter