Maktaba Wahhabi

49 - 83
طاغوت کی تعریف میں نہیں آتے۔ اولاً: یہ ارکان ویسے ہی ممبران پارلیمنٹ کا خطاب نہیں پاتے بلکہ ملک کے دستور اور رائج قانون کے تحفظ اور احترام کا حلف بھی اٹھاتے ہیں(اس حلف کی عبارت آئندہ صفحات میں دی جا رہی ہے) بنابریں ایوان کے کوئی سے بھی اکاون فیصد ارکان ایک فیصلہ کر دیں تو اس دستور کے بموجب جس کا یہ حلف اٹھاتے ہیں وہ فیصلہ صرف اکاون فیصد کا نہیں پورے ایوان کا تصور ہوتا ہے۔چنانچہ ایک غیر اسلامی قانون کے حق میں یا مخالفت میں ووٹ دینے کا کوئی اثر پڑ سکتا ہے تو وہ اس قانون کے پاس ہونے سے پہلے پہلے،بعد میں تو اس بات کا کوئی مطلب ہی نہیں کہ کس ممبر نے ووٹ دیا تھا اور کس نے نہیں۔ایک بار اکثریت رائے سے کوئی قانون پاس ہو گیا تو وہ پورے ایوان کی نمائندگی کرتا ہے اور ملک کا باقاعدہ قانون شمار ہوتا ہے جس کے احترام اور تحفظ کی ہر ممبر نے پیشگی قسم کھا رکھی ہے۔اب کوئی ممبر موچی دروازہ میں کھڑا ہو کر کچھ بھی کہے مگر اپنے حلف کی رو سے اصولاً اور فی الواقع سبھی اس کے احترام کے پابند ہیں اور سبھی اس کے محافظ۔ ثانیاً: یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ طاغوت ہونے کے لئے یہ قطعاً ضروری نہیں کہ وہ قانون سازی میں عملی طور پر شریک ہو اور تاآنکہ ایسا نہ ہو تو اس کا طاغوت ہونا معلق رہے۔شریک ایک اقرار و اعتقاد کا نام ہے سو ایک انسان الٰہی اختیارات رکھ کر ہی طاغوت بن جاتا ہے انہیں بروئے کار لانا تو بہت بعد کی بات ہے،پھر اس سے اللہ کی بندگی میں لوٹنے کے لئے بھی شرط یہ نہیں کہ وہ ایسے اختیارات کا استعمال ترک کر دے،جیسا کہ تمام اسلام پسند کر لیا کرتے ہیں،بلکہ ایسے خدائی اختیار سے خود کو دستبردار کرنا،اس جیسے دوسرے ارباب اختیار کا صاف انکار کرنا اور اپنے ماضی پہ نادم ہو کے توبہ و استغفار کرنا ضروری ہے۔
Flag Counter