Maktaba Wahhabi

68 - 83
ہے۔ایک یہ کہ یہ جاہلی عمل مسلمانوں میں نہ تھا بلکہ کفار اور یہود و نصاری سے نہ صرف آیا ہے بلکہ ابھی تک انہی کی تقلید میں ئہاں چلتا ہے اس وجہ سے یہ یہود و نصاری کی مشابہت ہے۔پھر جو یہاں کے جاہل اس کام کو پرے قومی،وطنی اور جاہلی اہتمام سے بجالاتے ہیں اس وجہ سے یہاں کے اہل باطل اور فساق کی مشابہت ہوتی ہے۔ رہا یہ مسئلہ کہ تشبہ صرف نیت کرنے سے ہوتا ہے تو عرض ہے کہ نیت سے تشبہ کاگناہ دو چند ضرور ہوجاتا ہے مگر صرف عمل سے بھی اسی حدیث کی رو سے ممنوع ہے بلکہ امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ایسے مسلمانوں کو یہود و نصاری کے جس تشبہ سے روکا گیا تھا وہ عملی ہی تھا ورنہ عمداً اور نیت کے ساتھ تشبہ کرنے کی تو ویسے ہی صحابہ رضی اللہ عنہ سے توقع نہ تھی۔ (4) اہل جاہلیت کی مخالفت کرنا واجب ہے اسلام نے صرف اتنا ہی نہیں کہا کہ یہود ونصاری اور فساق و فجار کی مشابہت ترک کردی جائے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ بھی واجب قرار دیا ہے کہ قصداً انکی مخالفت کیجائے اور جیسے وہ کرتے ہوں عمداً اسکے برعکس کیاجائے۔یہ مسئلہ بہت معروف ہے اور گنجائش نہ ہونیکی سبب اسکی تفصیل یہاں ممکن نہیں۔ مسلمان ہر نماز کی ہر رکعت میں انبیاء و صالحین اور صدیقین و شہداء کاراستہ پانے کی دعا کرتا ہے ارو مغضوب علیہم(یہود) اور ضالین(نصاری) کے راستے سے پناہ مانگتا ہے اہل جاہلیت کے راستے سے یہ نفرو پناہ جوئی اعتقادی تو ہے ہی عملی بھی ہوتی ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ’’ ظاہری عمل میں(غیر مسلموں کے) خلاف کرنا(دونوں ملتوں کے) اس امتیاز کو نمایاں کرتا ہے جو
Flag Counter