Maktaba Wahhabi

72 - 83
حرام قرار دیا ہے جو اس سے شراب بناتا ہو۔اسی طرح ایک بدکار انسان کو اسلحہ کی فروخت بھی ممنوع ہے۔پھر فتنہ کے وقت بھی اسلحہ کی فروخت ممنوع ہو جاتی ہے جبکہ فی نفسہٖ اس کو رکھنا یا بیچنا حلال ہے۔اس باب میں علماء اسلام کی تصنیفات کھنگال لیجئے کہیں ایسی گنجائش نہیں ملتی کہ جب پتہ ہو کہ شراب بنانے والا ہزار جگہوں سے انگور خرید سکتا ہے میں فروخت نہ بھی کروں تو دوسرے کر دیں گے یہ سوچ کر اسے بیچ دیا جائے کہ شراب ببنے سے تو اب رک نہیں سکتی،کیوں نہ سودے کے نتائج کو اپنے حق میں کر لیا جائے؟ ووٹ کو صرف ایک پرچی سمجھنے والے کیا نہیں دیکھتے کہ مذکورہ بالا سبھی چیزیں حلال تھیں مگر حرام مقصد کی وجہ سے یہ خود بھی ممنوع ہو گئیں؟ جبکہ حرام مقصد بھی دینے والے کا نہیں صرف لینے والے کا تھا۔ (7) وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا ’’رحمن کے بندے وہ ہیں جو باطل اور فریب کے تماشائی نہیں بنتے اور کسی بے ہودہ و لغو چیزن پر ان کا گزر(بھی) ہو جائے تو(ایک معززانہ شان بے نیازی سے) گزر جاتے ہیں‘‘(الفرقان:72) اس آیت کی تفسیر میں جناب انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’یہ مشرکین کے جشن اور عیدوں کے بارے میں ہے‘‘ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’یہ ایک کھیل تھی جو جاہلیت کے زمانے میں کھیلی جاتی تھی‘‘ ضحاک کہتے ہیں ’’مراد ہے شرک کی بات‘‘ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’جب اللہ تعالیٰ نے اس(زور و لغو) کا نہ دیکھنا ہی قابل ستائش بتایا ہے،جو کہ صرف اتنا ہے کہ ایسی جگہ پر جا کے کچھ سن یا دیکھ لیا جائے،تو پھر خالی دیکھنے کی بات تو رہی ایک طرف اس بارے میں کیا خیال ہے کہ اس سے بڑھ کر ایسا عمل ہی کر لیا جائے جو کہ بجائے خود عمل زور میں آتا ہے؟(اقتضاء الصراط المستقیم:179 - 178)۔
Flag Counter