Maktaba Wahhabi

39 - 83
کے باہر ہر انسان کو ہر معاملے میں آزادی کی ضمانت اس کا بنیادی حق ہے۔اس بنا پر حقوق و فرائض(آپ بے تکلف ہونا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں حلال و حرام) قانون کی نظر میں وہ ہوں گے جو آئین اور قانون خود مقرر کر دے۔پھر آئین کا آرٹیکل 4سیکولرازم کے اس بنیادی فلسفے کا لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے کہ جرم اور سزا کا تعین صرف اس ملک میں رائج قانون کرے گا،یوں اللہ اور رسول جو بھی کہتے رہیں جرم صرف وہ ہو گا جسے مروجہ قانون جرم کہتا ہو اور سزا بھی صرف وہی اور اتنی ہی روا ہو گی جو یہ قانون مقرر کرے گا … مزدی وضاحت کے لئے چند مثالیں۔ 1۔ ہر محلے اور گلی کے اندر آپ نے ہندومت اور سفلہ پن کی تعلیم دینے والی پاکستانی اور انڈین فلموں کے اڈے تو ضرور دیکھ رکھے ہوں گے۔ان میں غیر قانونی فلمیں جانے دیجئے،صرف ایسی فلمیں نکال لیجئے جو غلیظ اور برہنہ تو ضرور ہوں مگر سنسر قوانین سے جواز کی باقاعدہ سند یافتہ ہوں۔’’سادہ لوحی‘‘ میں آکر اگر آپ ہلاکت اور عذاب کو دعوت دینے والے اس گھناؤنے جرم کو پاکستان کی کسی عدالت میں چیلنج کرنا چاہیں تو آپ کو کیا جواب ملے گا؟ یہی نا کہ دین میں جرم ضرور ہو گا مگر قانون کی نظر میں جرم نہیں!پھر دین اور نظام و قانون جدا جدا ہوئے نا!بتایئے اور کافری کیا ہے؟ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ 2۔ پاکستان میں کسی جگہ اگر کوئی بااثر مذہبی آدمی غلاظت سے لتھڑی ہوئی ان لچر فلموں کو بزور بند کرنے کی کوشش کرے تو کیا آپ کو معلوم ہے کہ آئین کے آرٹیکل 4کی نظر میں اس نے پاپ کیا ہے؟ اس کا پاپ یہ ہے کہ جس چیز سے آئین اور قانون نے منع نہیں کیا ویڈیو سنٹر مالکان کو اس ’’جائز‘‘ کام سے منع کر کے اور Wrongful Confinementکا مرتکب ہو کے اس نے قانون کا ’’تقدس‘‘ پامال کیا ہے؟ اسی طرح کوئی بااختیار افسر ’’مذہبی شوق‘‘ میں آکے فحاشی پھیلانے والے سینما گھروں کے،سنسر قوانین کی رو سے،ایک ’’جائز اور قانونی حق‘‘ کے استعمال میں رکاوٹ بنے تو قانون کے آرٹیکل 4ہی کے بموجب ’’معزز‘‘ شہریوں کو ہراساں کرنے اور اختیارات کے ناجائز
Flag Counter