Maktaba Wahhabi

38 - 83
ایسے طور طریقوں کا آئینی طور پر بھر پور احترام کیا جاتا ہے۔یہاں تک کہ اکثریتی مذہب کو بعض اوقات اگر یہ حق بھی دے دیا جائے کہ صدر یا وزیر اعظم اکثریتی مذہب سے ہو گا اوقاف،عبادت خانوں کی تعمیر و تدبیر اور اس کی روحانی کتابوں کی طباعت کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے،اخباروں میں دینی صفحہ اور ریڈیو،ٹی وی پر روحانی پروگرام ’’بصیرت‘‘ وغیرہ تک کا بڑی عقیدت سے اہتمام ہوتا ہو مگر نظام مملکت اور کاروبار حیات میں دین کا دخل نہ ہو تو سمجھ لیجئے کہ وہاں سیکولر ازم کا راج ہے۔نتیجتاً اس نظام میں اللہ کو اجتماعی زندگی سے باہر الٰہ اور معبود مانا جاتا ہے۔رہا سیاست اور اسٹبلشمنٹ کے میدان میں تو ﴿لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللّٰهُ﴾(ترجمہ لکھوا دیں تو بہتر ہے لیکن حوالہ ڈھونڈیں شکریہ)۔ اچھے بھلوں کے لئے ابھی تک یہ معمہ ہے کہ پاکستا میں دین کو سیاست سے کیسے بے دخل کیا جا سکتا ہے۔نہ جانے اتنی سادہ بات سمجھنی مشکل کیوں ہو گئی کہ جب آئین و نظام سازی پر عملاً حق پارلیمنٹ کا تسلیم کر لیا جائے تو پھر مساجد اور تقریبات کو سجانے کے سوا معاشرے میں دین کا کوئی مصرف ہی نہیں رہتا۔رہا نظام و قانون کا معاملہ تو جب اصولاً یہ طے ہو جائے کہ قانون وہ کہلائے گا جو پارلیمنٹ پاس کرے،تو پھر قانون کا رتبہ پانے کے لئے شریعت کا نہ تو اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل ہونا کافی ہوا،نہ جبریل کا لے کر آنا اور نہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ابلاغ و بیان فرمانا نہ قرآن میں بیان ہونا اور نہ بخاری اور مسلم میں روایت ہونا۔یہ سب کچھ سر آنکھوں پر ہونے کے باوجود پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر قانون کے درجے کو نہیں پہنچتا۔پھر جب یہ حق پارلیمنٹ کا تسلیم کر لیا جائے تو وہ قرآن کی ایک آیت کو بھی قانون کا ویسا ہی درجہ عطا کر سکتی ہے جیسا فلم انڈسٹری کی ایک فاحشہ کے مطالبے کو۔ یوں پارلیمنٹ کا حکم نازل ہونے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی اس کی اور قرآن کی قانونی پوزیشن اس نظام میں ایک سی ہوتی ہے۔قانون دان ’’تکلف‘‘ سے کام نہ لیں تو اس سے انکار نہیں کر سکتے۔اسی کفر کو امر کرنے کے لئے آئین کے بنیادی حقوق کا باب سیکولر ازم کے اس مشہور و معروف عقیدے کا ہو بہو عکاس ہے کہ کسی انسان پر اگر کوئی پابندی ہو سکتی ہے تو وہ قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہے،اس
Flag Counter