Maktaba Wahhabi

36 - 83
نام اسلام رکھتا پھرے … اللہ کے دین میں نہیں کسی شیطان کے دین میں داخل ہوا ہے۔پھر اگر کوئی اسلام لانے کے بعد بھی مخلوق کے کسی ایسے معمولی سے معمولی کام کا اقرار کر لیتا ہے تو اسی وقت شیطان کے دین میں چلا جاتا ہے۔ ﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا﴾(الاحزاب:36)۔ ’’کسی مومن کے لئے چاہے وہ مرد ہو یا عورت یہ ناممکن ہے کہ اللہ اور اس کا رسول بات کر دے پھر ان کیلئے کسی بھی اختیار کی گنجائش رہ جائے‘‘ کجا یہ ہے کہ ایسے بیشمار کافر ترین اختیارات کو آئین بنا دیا جائے،ہر ممبر سے اس پر حلفاً قسم لی جائے اور اس کی اطاعت،پابندی اور وفاداری کو پاکستان کی دھرتی پر بسنے والے ہر شہری کا فرض اولین قرار دیا جائے اور اس کے خلاف کسی بھی قسم کی بغاوت سنگین ترین جرم قرار پائے۔ اللہ کی کسی مخلوق کو اس کی شریعت کی منظوری کے اختیار ایسا جرم تو آسمان تک لرزا دینے کو کافی ہے۔یہاں تک کہ کوئی انسان اللہ کی اطاعت بجا لاتے ہوئے دل میں کوئی تنگی پاتا ہو تو اسے اس آیت پر ٹھہرنا چاہیئے جس میں اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے ایمان کی نفی کرتا ہے: ﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾(النسآء: 65) ’’نہیں،اے محمد!تمہارے رب کی قسم،یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں،پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی(تک) نہ محسوس کریں بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔‘‘ علمائے سلف نے جو نواقض اسلام بیان کئے ہیں(شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے انہیں ترتیب سے بیان کیا ہے) ان کے بموجب آدمی یہ اعتقاد رکھنے سے مرتد ہو جاتا ہے کہ کوئی بھی انسان رسول
Flag Counter