عنہ وغیرہ کی رائے اس کے برعکس تھی کہ فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے اور اس مال سے آئندہ جن کی تیاری کی جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی رائے کو پسند فرمایا جس پر یہ اور اس کے بعد کی آیات نازل ہوئی ﴿حَتّٰی یُثْخِنَ فِیْ الاَرْضِ﴾ کا مطلب ہے کہ اگر ملک میں کفر کا غلبہ ہے (جیسا کہ اس وقت عرب میں کفر کا غلبہ تھا) تو کافروں کی خونریزی کر کے کفر کی قوت کو توڑنا ضروری ہے۔ اس نکتے کو نظر انداز کر کے تم نے جو فدیہ قبول کیا ہے تو گویا، زیادہ بہتر صورت کو چھوڑ کر کم تر صورت کو اختیار کیا ہے جو تمہاری غلطی ہے۔ بعد میں جب کفر کا غلبہ ختم ہو گیا تو قیدیوں کے بارے میں امام وقت کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ چاہے تو قتل کر دے، فدیہ لے کر چھوڑ دے یا مسلمان قیدیوں کے ساتھ تبادلہ کر لے اور چاہے تو ان کو غلام بنا لے، حالات و ظروف کے مطابق کوئی بھی صورت اختیار کرنا جائز ہے۔ لَوْلاَ کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (۶۸) اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی٭ تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس بارے میں تمہیں کوئی بڑی سزا ہوتی ۔ ٭ اس میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ یہ لکھی ہوئی بات کیا تھی؟ بعض نے کہا کہ اس سے مال غنیمت کی حلت مراد ہے یعنی چونکہ یہ نوشتہء تقدیر تھا کہ |