سامنے پیار لینے کے لیے اپنا سر آگے کر دے تو ان کی حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہیے البتہ مسئلہ صحیح صورت حال سے انہیں ضرور آگاہ کر دیاجائے۔ ہمارے بعض خاندانوں میں ایسے موقع پر گلے ملنے کا رواج ہے اس کی کسی صورت میں اجازت نہیں دی جا سکتی اسی طرح سر پر ہاتھ پھیرتے وقت اگرکسی قسم کی شہوانی تحریک پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو بھی اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ بینک سےسود پر قرضہ لینا؟ سوال:ایک آدمی کو کاروبار چلانے کے لیے رقم درکار ہے اور وہ بینک سے سود پر قرض لے کر اپنا کاروبار چلاتا ہے ایسے حالات میں سود پر قرض لینا جائز ہے؟ جواب ہمارے نزدیک سوال میں ذکر کردہ کوئی ایسی مجبوری نہیں جس کے پیش نظر سود لینا جائز قرار دیا جائے، سود پر قرض لے کر کاروبار چلانا، اس سے مزید تباہی ہو گی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ يُرْبِي الصَّدَقٰتِ١ ﴾[1] ’’اﷲ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کی نشوونما کرتا ہے۔‘‘ جب اﷲ تعالیٰ نے سود کو حرام کر دیا ہے تو ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اﷲ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دے، ایسے کاروبار کو ترک کر دیا جائے جو سودی قرض کے بغیر نہیں چلتا، انسان کو چاہیے کہ وہ محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالے، سود پر کسی صورت میں قرض نہ لے کیونکہ اس میں ہلاکت ہے جو انسان قوی اور کمانے کے قابل ہے اسے کسب حلال کا اہتمام کرنا چاہیے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ وہ شخص جو لکڑیوں کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے، اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے چاہے وہ اسے کچھ دے یا نہ دے۔[2] اس حدیث میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے محنت اور مزدوری کی عظمت کو اجاگر کیا ہے، مذکورہ شخص کو سود پر قرض لے کر کاروبار چلانے کی بجائے محنت اورمزدوری کو اختیار کرنا چاہیے۔ باپ کا بیٹے کا قرضہ اتارنا سوال: میرا ایک بیٹا شادی شدہ اور صاحب اولاد ہے، اس کے ذمے بہت سا قرض ہے لیکن اس کے مالی وسائل انتہائی محدود ہیں، کیا میں اپنی کمائی میں سے اس کا قرض اتار سکتا ہوں جب کہ احادیث میں اولاد کے درمیان عدل ومساوات کرنے کی تاکید ہے؟ اس کے متعلق میری راہنمائی کریں ۔ جواب:اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اولاد کے درمیان عدل واجب ہے، کسی کو دینا اور کسی کو محروم کرنا یا ایک کو دوسرے پر فضیلت دینا حرام ہے، ہاں اگر کوئی معقول سبب ہو تو الگ بات ہے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو۔‘‘ [3] |