سے معلق ہوگی، اسے زمین میں کاشت کیا جائے گا۔ پھر اسے پانی بھی دیا جائے گا، زمینی آفات سے اس کی نگرانی بھی کی جائے گی، اس کے بعد یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ یہ بیج اگے اور پھلے پھولے گا۔ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس سوال کا جواب اپنے مخصوص انداز میں دیا ہے کہ سوال میں بیان کردہ صورت حال کا تقاضا ہے کہ ہم ہر قسم کے اسباب وذرائع کو معطل کر دیں اور انہیں بالکل عمل میں نہ لائیں کیونکہ اگر ہمارے مقدر میں سیر ہونا لکھا ہے تو ہو کر رہے گا۔ خواہ ہم کھانا کھائیں یا نہ کھائیں، اسی طرح اگر ہمارے مقدر میں اولاد ہے تو وہ ہو کر رہے گی خواہ ہم شادی کریں یا نہ کریں اور شادی کرنے کے بعد بیوی کے پاس جائیں یا نہ جائیں، کیا کوئی عقل مند آدمی اس بات کا اقرار کرتا ہے بلکہ دنیا میں اسے احمق کہا جائے گا، کیونکہ کسی چیز کا وقوع پذیر ہونا اسباب سے معلق ہے، وہ اسباب بھی تقدیر کا حصہ ہیں اور ان کی بجاآوری ضروری ہے، ہمارا رزق طے شدہ ہے لیکن اس کے لیے بھاگ دوڑ، محنت ومشقت اور ذرائع واسباب کو استعمال کرنا ضروری ہے، گھر بیٹھ رہنے سے وہ مقدر حاصل نہیں ہو گا چنانچہ اس بات کی وضاحت ایک حدیث میں بایں الفاظ ہے۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمر میں کسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے اضافہ ہوتا ہے۔ بری تقدیر کو دعا ٹال دیتی ہے اور آدمی بعض اوقات اپنے برے کردار کی وجہ سے رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ [1] اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نیکی اور حسن سلوک انسان کی عمر میں اضافہ کا سبب ہے، جب اسے عمل میں لایا جائے گا تو سبب یعنی عمر میں اضافہ ہو گا اور یہ دونوں باتیں یعنی نیک عمل کرنا اور عمر میں اضافہ ہونا تقدیر کا حصہ ہیں، اسی طرح کسی پریشانی یا بیماری میں مبتلا ہونا تقدیر کا حصہ ہے اور دعا یا دوا سے اس کا دور ہونا بھی اﷲ کے ہاں لکھا ہوا ہے۔ چونکہ ہم اسباب وذرائع کو استعمال کرنے کے پابند ہیں۔ اس لیے ان کی بجاآوری بھی ضروری ہے۔ چنانچہ یہ بات اﷲ کے علم میں ہے کہ فلاں آدمی فلاں گناہ کے ارتکاب سے رزق سے محروم ہو گا جب وہ گناہ کرے گا تو ضرور اس رزق سے محروم ہو گا، اگرچہ احتیاطی تدابیر بعض اوقات کارگر ثابت نہیں ہوتیں۔ تاہم دعا ایک ایسی احتیاطی تدبیر ہے کہ یہ کسی صورت ضائع نہیں ہوتی جیسا کہ ایک حدیث میں واضح ارشاد ملتا ہے۔ [2] اللہ کا بندے کی طرف چل کر آنا سوال: حدیث میں ہے کہ اگر میرا بندہ میری طرف ایک قدم آتا ہے تو میں دو قدم اس کی طرف آتا ہوں، اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔ صفات باری تعالیٰ میں حقیقی معنی مراد لینا ہی سلف صالحین کا عقیدہ اور طرز عمل ہے، اس عقیدے کی روشنی میں حدیث مذکورہ کا حقیقی معنی کس تناظر میں لیا جائے گا؟ جواب: اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے، حدیث میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ میں اپنے بندے سے اس کے گمان کے مطابق برتاؤ کرتا ہوں، جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اورجب وہ مجھے کسی مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں اس سے بہتر مجلس میں یاد کرتا |