Maktaba Wahhabi

57 - 234
پس ہر وہ عقیدہ ؛ قول اور عمل جس کے متعلق یہ ثابت ہو جائے کہ یہ شارع علیہ السلام کی طرف سے مأمور بہ ہے؛ اس کا صرف ایک اللہ وحدہ لاشریک کے لیے بجا لانا ایمان اور اخلاص ہے؛ اور اس کو غیر اللہ کے لیے بجا لانا کفر اور شرک ہے۔اس ضابطہ کو اچھی طرح سے سمجھ لیجیے؛ کوئی بھی چیز اس سے باہر نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ شرک اصغر کی حدیہ ہے کہ: ’’ ہر وہ وسیلہ اور ذریعہ جو شرک اکبر تک پہنچاسکتا ہو؛ خواہ وہ قول ہویا فعل یا ارادہ ؛ جو کہ عبادت کے مرتبہ تک نہ پہنچتا ہو۔‘‘ پس شرک اکبر اور شرک اصغر کے بارے میں ان دونوں ضابطوں کو اچھی طرح سے سمجھ لیجیے۔ اس سے آپ کو اس کتاب کے سابقہ اور آئندہ ابواب کے سمجھنے میں مدد ملے گی۔اور ان امور کے سمجھنے میں بھی مدد ملے گی جن میں کثرت کے ساتھ اشتباہ[شبہات] پائے جاتے ہیں۔ واللہ المستعان۔ ________________________ (1) غیر اللہ کے لیے ذبح کرنے کی وعید شدید ہے اور ایسا کرنا اللہ عزوجل کے ساتھ شرک ہے۔ذبح سے مراد خون بہانا ہے۔ذبح میں دوچیزیں اہم ہوتی ہیں:1 کسی کا نام لے کر ذبح کرنا۔2 کسی کا قرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کرنا۔ پہلی صورت میں اصل چیز نام ہے اور دوسری صورت میں قصد و ارادہ۔ دراصل جانور ذبح کرتے وقت جس کا نام لیا جائے اس سے استعانت اور مدد مقصود ہوتی ہے۔ مثلا اگر آپ باسم اللہ کہیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں اللہ کے نام سے مدد حاصل کرتے ہوئے اور اسے متبرک سمجھتے ہوئے ذبح کرتا ہوں۔ رہی بات قصد و ارادہ کی تو یہ عبودیت اور بندگی کے اظہار کی ایک صورت ہے۔ نام اور قصد و ارادہ کے لحاظ سے ہمارے سامنے چار صورتیں آتی ہیں: (1) اللہ کا نام لے کر اسی کے تقرب کے قصد سے ذبح کرنا۔ اس کے لیے دوشرطیں ہیں۔ پہلی شرط: اللہ تعالیٰ کے تقرب کے ارادے سے ذبح کرے،جیسے قربانی، بدی، اور عقیقہ وغیرہ۔ دوسری شرط: اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔ اگر جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا تو ذبیحہ حلال نہ ہوگا۔ یہ دونوں شرطیں بیک وقت تب کارگرہیں جب ذبح سے اللہ تعالیٰ کا تقرب مقصود ہو۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے نہیں بلکہ مہمانوں کی مہمان نوازی کے لیے یا اپنے کھانے کے لیے ذبح کرے تو یہ جائز ہے، شرعا اس کی اجازت ہے کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کیا ہے، غیر اللہ کا نام نہیں لیا۔ یہ وعید میں داخل ہوگا نہ ممانعت میں۔ (2) ذبح تو اللہ کا نام لے کر کیا جائے لیکن مقصود اس سے غیر اللہ کا تقرب ہو۔ مثلا ذبح کے وقت یہ کہے(بسم اللہ)میں اللہ کا نام لے کر ذبح کرتا ہوں اور اس ذبح سے اس کی نیت، کسی مدفون(دفن شدہ)نبی یا کسی بزرگ کا تقرب ہو۔تو یہ ذبح بھی اور ذبح شدہ جانور بھی حرام ہے۔ (3) ذبح غیر اللہ کا نام لے کر کیا جائے اور اس سے مقصود بھی غیر اللہ کا تقرب ہی ہو۔ مثلا باسم المسیح کہہ کر ذبح کرے اور تقرب بھی مسیح ہی کا مقصود ہو۔ یہ بہت بڑا شرک ہے۔ شرک فی الاستعانت بھی اور شرک فی العبادت بھی۔ اس طرح بدوی، جسین، زینب، عیدروس، مرغینانی؛بابا صاحب ؛ یا ان کے علاوہ وہ شخصیات جن سے لوگ عبادت اور پوجا والا معاملہ رکھتے ہیں ان کے نام لے کر ذبح کرنے کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ ان کے نام لے کر ذبح کرتے وقت لوگوں کی نیت اور ارادہ ان کا تقرب ہوتا ہے۔ اس لیے یہ دوطرح سے شرک بن جاتا ہے۔ ایک تو استعانت اور مدد کے حصول کی وجہ سے اور دوسرا عبودیت، تعظیم اور غیر اللہ کے لیے خون بہانے کی وجہ سے۔ (4) ذبح غیر اللہ کا نام لے کر کیا جائے اور مقصود، اللہ کاتقرب ہو، اور یہ بہت قلیل اور نادر ہے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ذبح تو کسی بزرگ کانام لے کر کیا جائے مگر نیت یہ ہوتی ہے کہ اس سے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے تو یہ بھی درحقیقت شرک فی الاستعانت اور شرک فی العبادت ہی میں شامل ہے۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ غیر اللہ کے تقرب کے لیے مکھی جیسی بے قدر و قیمت چیز کا چڑھاوا چڑھاوا چڑھانا جب اس آدمی کے لیے جہنم میں داخل ہونے کا سبب بنا تو جو چیز منفعت میں اس سے بڑی اور قیمتی ہو اس کا چڑھاوا چڑھانا اسی قدر دخول جہنم کا بڑا سبب ہو گا۔
Flag Counter