Maktaba Wahhabi

55 - 234
حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (دَ خَلَ الْجَنَّۃَ رَ جُلٌ فِیْ ذُبَابٍ وَ دَخَلَ النَّارَ رَجُلٌ فِیْ ذُبَابٍ۔ قَالُوْا: وَ کَیْفَ ذٰلِکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم ؟ قَالَ:((مَرَّ رَجُلَانِ عَلیٰ قَوْ مٍ لَّھُمْ صَنَمٌ لَا یُجَاوِزُہٗ اَحَدٌ حَتّٰی یُقَرِّب لَہٗ شَیْئًا۔)) فَقالُوْا لِاَحَِدِھِمَا:((قَرِّبْ قَالَ لَیْسَ عِنْدِیْ شَیْئُ اُقَرِّبُ۔)) قَالُوْا لَہٗ: قَرِّبْ وَ لَوْ ذُبَاباً۔ فَقَرَّبَ ذُبَابًا؛ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہٗ۔ فَدَخَلَ النَّارَ۔ وَ قَالُوْا لِلْاَخَرِ:((قَرِّبْ))۔فَقَالَ: مَاکُنْتُ لِاُقَرِّبَ لِاَحَدٍ شَیْئًا دُوْنَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَضَرَبُوْا عُنُقَہٗ فَدَخَلَ الْجَنَّۃَ۔))[1] ’’ایک شخص ایک مکھی کی وجہ سے جنت میں چلاگیا اور ایک شخص ایک مکھی ہی کی وجہ سے جہنم میں جا پہنچا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ کیسے؟ فرمایا: دوآدمیوں کا ایک قوم پر گزر ہوا۔ جس کا ایک بت تھا وہ کسی کو وہاں سے چڑھاوا دیے بغیر گزرنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ انہوں نے ان میں سے ایک سے کہا: چڑھاوا چڑھا۔ اس نے کہا: میرے پاس چڑھاوے کے لیے کچھ نہیں۔کہنے لگے: چڑھاوا چڑھا خواہ ایک مکھی ہی ہو۔ اس نے ایک مکھی کا چڑھاوا چڑھادیا؛ تو انہوں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا ؛ وہ اس سبب جہنم میں جا پہنچا۔ دوسرے سے کہا: ’’توبھی چڑھاوا چڑھا۔‘‘وہ بولا: میں تو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے واسطے کوئی چڑھاوا نہیں چڑھا سکتا۔ انہوں نے اسے قتل کردیا۔ اور وہ سیدھا جنت میں جا پہنچا۔‘‘ اس باب کے مسائل 1۔ آیت﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ﴾تفسیر معلوم ہوتی ہے۔ 2۔ آیت﴿فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ﴾کی تفسیر بھی معلوم ہوتی ہے۔ 3۔ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے غیر اللہ کے لیے ذبح کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ 4۔ اپنے والدین پر لعنت کرنے والے پر لعنت کی ہے۔ایسا تب ہوگا جب کوئی کسی کے والدین پر لعنت کرے تو وہ اس کے والدین پر لعنت کریں۔[اس طرح وہ خود اپنے والدین پر لعنت کا سبب بن گیا]۔ 5۔ اس حدیث میں بدعتی کو پناہ دینے والے پر لعنت کی گئی ہے۔ اس سے مراد ایسا شخص ہے جس پربدعت کے ارتکاب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا واجب ہو اور وہ اس سے بچنے کے لیے کسی کی پناہ ڈھونڈ رہا ہو۔
Flag Counter