Maktaba Wahhabi

146 - 234
مصائب اور پریشانی کے وقت اللہ تعالیٰ سے ان کے خاتمہ کی امید رکھے؛ اوراس کے بعد اچھائی اور وسعت اور خوشحالی کا انتظار کرے ؛ اوراللہ تعالیٰ سے امید رکھے کہ جب یہ مصیبت پر صبر کر رہا ہے تو اس کے اجر و ثواب سے محروم نہ رہے گا۔ اور اس بات سے ڈرتا بھی رہے کہ کہیں اس پر دو مصیبتیں نہ ٹوٹ پریں ؛ ایک تو مصیبت اور تنگی ؛جب کہ وہ اس پر واجب صبر بھی نہ کرسکتا تو پھر جو محبوب اجر ملنے والا اس سے بھی محروم ہی نہ رہ جائے۔ پس موحد مؤمن ہر حال میں خوف اور امید کا دامن تھامے رکھتاہے۔ اور ایسا کرنا واجب بھی ہے۔ یہی نفع بخش طریقہ ہے جس سے سعادت مندی حاصل ہوتی ہے۔اس سلسلہ میں انسان کو دو برے اخلاقیات سے بچ کر رہنا چاہیے۔ اول: کہیں اس پر خوف اتنا غالب نہ آجائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اورمہربانی سے نا امید اور مایوس ہوجائے۔ دوم: امیدیں اس کو اتنی ڈھیل نہ دیدیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر اور سزا سے بے خوف ہو جائے۔ جب بھی کوئی اس حال کو پہنچ گیا تویقیناً اس نے واجب خوف اور امید دونوں و ضائع کردیا۔ حالانکہ یہ دونوں چیزیں توحید کے سب سے بڑے اصول اور ایمان کے سب سے بڑے واجبات میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امیدی اور اس کی مہربانی سے مایوسی کا بنیادی سبب دو ممنوعہ کام ہیں: اول: یہ کہ انسان اپنے آپ پر ظلم کرے؛ اور حرام کاموں کا ارتکاب کرے؛ ان پرمصر رہے؛ اور ان گناہوں پر لگے رہنے کا عزم کرلے۔ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اپنی تمام تر امیدوں کو توڑ ڈالے۔ اس لیے کہ وہ ایسے اسباب /گناہوں پر قائم ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول میں رکاوٹ ہیں۔وہ مسلسل اسی حال میں رہتا ہے ؛ حتی کہ یہ صورتحال اس کے اخلاقی اوصاف کا ایک لازمی حصہ بن جاتی ہے۔ اور شیطان کی کسی بھی بندے سے آخری خواہش یہی ہوتی ہے۔ جب کوئی اس حال کو پہنچ جائے تو اس کے لیے سچی توبہ اور گناہوں کو ترک کئے بغیر کسی خیر و بھلائی کی امید نہیں کی جاسکتی۔
Flag Counter