Maktaba Wahhabi

145 - 234
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ((اَکْبَرُ الْکَبَآئِرِ اَلْاِشْرَکُ بِاللّٰهِ وَ الْاَمْنُ مِنْ مَّکْرِ اللّٰهِ وَ الْقُنُوْطُ مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰهِ وَ الْیَاْسُ مِنْ رُّوْحِ اللّٰهِ۔))[1] ’’سب سے بڑے گناہ یہ ہیں: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، اللہ کی تدبیر سے بے خوف ہونا، اللہ کی رحمت سے ناامید ہونا اور اللہ کے فضل سے مایوس ہونا۔‘‘ اس باب کے مسائل: 1۔ سورہ الاعراف کی آیت 99کی تفسیر معلوم ہوئی۔[جس میں اللہ تعالیٰ کی تدبیر سے بے خوف رہنے والوں کو خسارہ پانے والے قرار دیاگیاہے]۔ 2۔ سورہ الحجر کی آیت 56 کی تفسیر بھی واضح ہوئی[کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونے والے لوگ گم راہ ہیں]۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی تدبیر سے بے خوف رہنے والوں کے لیے بہت سخت وعید۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو نے والوں کے لیے بہت سخت وعید۔ اس باب کی شرح: اللہ تعالیٰ کی تدبیر سے بے خوف نہیں ہونا چاہیے اس عنوان سے مقصود یہ ہے کہ انسان پر واجب ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا بھی رہے؛ اورڈر و خوف کے ساتھ ساتھ اس سے اچھی امید بھی رکھے۔ اگرانسان اپنے گناہوں کی طرف؛ اور اللہ تعالیٰ کے عدل اور سخت سزا کی طرف دیکھے؛ تو اپنے رب سے ڈرے ؛ اور خوف کھائے۔ اور اگراس کے عام و خاص فضل و کرم اور عمومی عفو و مغفرت کی طرف دیکھے تو اس کی بخشش اور مغفرت پر امیدیں لگا لے۔ اگر اللہ تعالیٰ اسے عبادت کی توفیق دیں ؛ تو پھراتمام نعمت کے طور پر اس کی قبولیت کی امید بھی رکھے۔ اور اس کے ساتھ ہی عبادت کے حق میں کمی و کوتاہی ہوجانے کی وجہ سے اس کے رد کئے جانے سے ڈرتا بھی رہے۔ اور اگر اسے کسی نافرمانی یا گناہ سے آزمایا جائے تو اس کی اپنے رب پر مضبوط امید ہونی چاہیے کہ اس کی توبہ قبول ہوگی اور گناہ مٹادیے جائیں گے۔ اور توبہ کی کمزوری ؛ اور پھر گناہ کی طرف التفات کی وجہ سے یہ ڈر بھی رہے کہ کہیں اسے اس پر سزا نہ ملے۔ نعمت اور خوشی کے حصول پر اللہ تعالیٰ سے امید رکھے کہ اس نعمت کو دوام نصیب ہوگی؛ اور اس میں ترقی ہوگی؛اور اس کا شکر ادا کرنے کی توفیق بھی نصیب ہوگی۔ اورشکر میں خلل آجانے کی وجہ سے اس بات سے ڈرتا بھی رہے کہ کہیں اس سے یہ نعمت سلب نہ کر لی جائے۔
Flag Counter