Maktaba Wahhabi

134 - 234
’’کوئی شخص اس وقت تک ایمان کی حلاوت(مٹھاس) نہیں پاسکتا جب تک وہ کسی سے محبت کرے تو محض اللہ تعالیٰ کے لیے…۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ((مَنْ أَحَبَّ فِی اللّٰهِ وَ أَبْغَضَ فِی اللّٰهِ وَ وَالٰی فِی اللّٰهِ وَ عَادٰی فِی اللّٰهِ ؛ فَإِنَّمَا تَنَالُ وَلَایَۃَ اللّٰهِ بِذٰلِکَ۔ وَ لَنْ یَّجِدَ عَبْدٌ طَعْمَ الْاِیْمَانِ وَ إِنْ کَثُرَتْ صَلٰوتُہٗ وَ صَوْمُہٗ حَتّٰی یَکُوْنَ کَذٰلِکَ وَ قَدْ صَارَتْ عَامَّۃُ مُوَاخَاۃِ النَّاسِ عَلٰی أَمْرِ الدُّنْیَا وَ ذٰلِکَ لَا یُجْدِ عَلٰی أَھْلِہٖ۔)) [1] ’’جو شخص محض اللہ تعالیٰ کے لیے محبت رکھے، اور اللہ ہی کے لیے بغض رکھے، اور کسی سے دوستی ہو یا دشمنی وہ بھی محض اللہ ہی کے لیے ہو تو جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی ولایت انہی کاموں سے حاصل ہوسکتی ہے۔ اور کوئی بھی شخص ان امور کے بغیر ایمان کی حلاوت نہیں پاسکتا خواہ وہ بکثرت نمازیں پڑھتا ہو یا روزے رکھتا ہو۔ عام لوگوں کی آپس میں محبت اور تعلقات دنیوی امور پر استوار ہیں، حالانکہ یہ عمل ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں قطعا سود مند نہ ہوگا۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ﴿وَ تَقَطَّعَتْ بِھِمُ الْأَسْبَابُ﴾[قَالَ الْمَوَدَّۃ](البقرۃ166] (اس روز ان کے سارے اسباب ختم ہو جائیں گے):’’ اسباب سے دوستی، محبت اور تعلقات مراد ہیں۔‘‘ اس باب کے مسائل: 1۔ سورہ البقرہ کی آیت 165کی تفسیر معلوم ہوئی۔ 2۔ سورہ توبہ کی آیت 24کی تفسیر بھی معلوم ہوئی۔ 3۔ اپنی جان، اہل و عیال اور مال و منال کے مقابلہ میں سب سے زیادہ محبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونی چاہیے۔ 4۔ بعض اوقات ایمان کی نفی کا مطلب دائرہ اسلام سے خروج نہیں ہوتا بلکہ اس سے ایمان کی کمی مراد ہوتی ہے۔ 5۔ ایمان کی ایک چاشنی ہے تاہم کبھی اس کا احساس ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا۔ 6۔ چار قلبی اعمال ایسے ہیں جن کے بغیر انسان اللہ تعالیٰ کی ولایت(دوستی اور محبت) حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ان کے بغیر ایمان کاذائقہ چکھ سکتا ہے۔ 7۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین واقعات و حقائق کی روشنی میں جانتے تھے کہ عوام کے باہمی تعلقات اور میل جول محض دنیا کی خاطر ہیں۔ 8۔ اس باب سے﴿وَ تَقَطَّعَتْ بِھِمُ الْأَسْبَابُ﴾کی تفسیر بھی واضح ہوتی ہے۔ 9۔ بعض لوگ مشرک ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔
Flag Counter