Maktaba Wahhabi

124 - 234
اس باب کی شرح: باب: بد فالی کے بیان میں بدفالی[التطیر]سے مراد ہے کہ مختلف پرندوں ؛اسماء ؛ الفاظ اور مختلف جگہوں سے نحوست پکڑنا ؛ بد شگونی لینا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد فالی لینے سے منع فرمایا ہے؛ اور بد فالی لینے والوں کی مذمت کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیک فال پسند تھی؛ اور بد فالی کو نا پسند کرتے تھے۔ ان دونوں چیزوں میں فرق یہ ہے کہ: نیک فال سے انسان کے عقیدہ یاعقل میں خلل واقع نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی اس میں دل کا تعلق غیر اللہ کے ساتھ ہوتاہے۔ بلکہ اس میں مصلحت ہوتی ہے۔جس سے انسان میں نشاط اورچستی اور سرور آتا ہے؛ اور اپنے نفع بخش مطالب حاصل کرنے کے لیے نفوس کو تقویت ملتی ہے۔ اس کی وضاحت اس طرح سے ہے کہ: ایک انسان سفر یاشادی کا ؛ یا کسی دیگر معاملہ میں کسی اہم ترین حالت میں کسی کام کا ارادہ کرتا ہے؛ پھر وہ کوئی ایسی چیز دیکھتا ہے جوکہ موجودہ حالات خوش کردیتی ہے؛یا پھر ایسی بات سنتا ہے جس سے وہ خوشی پاتا ہے؛ مثال کے طور پر وہ سنتا ہے کوئی پکارتا ہے: ایک کامیاب انسان؛ اے غنیمتوں کے سمیٹنے والے؛ اے صحیح سالم اور فتح یاب انسان۔ تو وہ اس سے وہ نیک فال لیتا ہے۔ اور اس کام کے آسانی سے ہوجانے میں ا س کی طمع مزید بڑھ جاتی ہے جس کا وہ ارادہ کئے ہوئے ہے۔تو یہ سارے کا ساری خیر و بھلائی ہے؛ اور اس کا ثمرہ بھی خیر و بھلائی ہوتا ہے؛ اس میں کوئی بات ممنوع نہیں ہے۔ اور بدگمانی یہ ہے کہ انسان کسی ایسے کام کے کرنے کا عزم کرلے جو اس کے لیے دین اور دنیا میں نفع بخش ہو؛ پھر وہ کوئی ایسی چیز دیکھے؛ یا کوئی ایسی بات سنے جو اس کے دل میں ناپسندیدہ ہو؛ اوروہ دل میں اپنے اثرات چھوڑ جائے؛ یہ اثرات ایک سے بڑھ کر ایک خطرناک ہے۔ وہ دو اثرات یہ ہیں: اول: یہ کہ اس نا پسندیدگی پر ؛ دل کی بات مان کر وہ کام ترک کردے جس کا وہ پختہ عزم کرچکا تھا؛ یا پھر اس کے برعکس معاملہ ہو جائے۔ وہ اس سے بد فالی لیکراس کام سے الٹے پاؤں پھر جائے جس کا وہ عزم کئے ہوئے تھا۔تو جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں ؛ اس میں اس کا دل انتہائی درجہ تک اس مکروہ چیز کے ساتھ معلق ہے؛ اور اسی پر وہ عمل کر رہا ہے۔ اور اس مکروہ چیز نے اس کے عزم و ارادہ اور عمل میں اپنا تصرف کر دکھایا ہے؛ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ صورت اس کے ایمان پر اثر انداز ہوتی ہے؛ اور اس کی توحید اور توکل میں خلل ڈالتی ہے۔ اور پھراس کے بعد نہ پوچھیں کہ اس کردار کی وجہ سے اس کے دل میں کتنا خوف او رکمزوری اورمخلوق سے ؛ اور ان وسائل اور اسباب سے تعلق پیدا ہوگا جو کہ اصل میں اسباب نہیں ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے دلی تعلق میں توڑ اور کمزوری پیدا ہوگی۔ اس کی اصل وجہ توحید اور توکل میں کمزوری اور شرک کی راہوں اور وسائل کا وجود ہے اور ان خرافات کی دخل اندازی ہے جن کی وجہ سے عقل میں خرابی پیدا ہوتی ہے۔ دوم: وہ اس خیال[فال / داعی] کی بات کو نظر انداز کردے؛ مگر پھر بھی اس کی وجہ سے اس کے دل میں غم و ملال اور افسوس پیدا
Flag Counter