عبدالقادر کی" غنیہ" دیکھ لیتے ؟، کیا ہوتا اگر وہ" فصوص الحکم "اور "فتوحات مکیہ " دیکھ لیتے؟، بلکہ جب حارث اپنی قوم میں مشہور ہوا تھا تو اس وقت اس کے ہم عصر ہزار سے زائد حدیث کے امام موجود تھے جن میں امام احمدرحمہ اللہ اور اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ جیسے علم کے پہاڑ تھے ، اور جب حدیث کے امام ابن دخمیسی اور ابن شیحانہ جیسے لوگ بنے تو اس وقت صاحب الفصوص اور ابن سفیان جیسے لوگ علماء کے قلندر بن بیٹھے تھے، اس پر ہم اللہ تعالی سے عفو ودرگزر کا ہی سوال کر سکتے ہیں" [1]۔ اور ہم کہتے ہیں : ان کی کیا کیفیت ہوگی اگر وہ ہمارے زمانے کی گمراہ کتابیں اور مقالات دیکھ لیں ، جو سب کی سب سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انحراف کی دعوت ، عقیدہ توحید کے بگاڑ اور عقیدہ کے مخالفین کی ملمع سازی پر مشتمل ہیں ؟ اور یہ سب کچھ مسلمانوں کی یکجہتی کے بہانے کیا جاتا ہے، اللہ کی پناہ ایسی یکجہتی سے جو اللہ کے غضب کی مستحق ٹھہرے!۔ امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب بھی کوئی فرقہ ظاہر ہو جو گمراہی کی طرف بلائے اور اپنی چکنی چپڑی باتوں سے عام لوگوں کے دلوں میں گھر کر جائے تو ایسا فرقہ مسلمانوں کے لئے ابلیس سے زیادہ خطرناک ہے، اور یہ انسانی شیطان ہیں، لہذا ن کے بدعتی اور گمراہ ہونے کے بارے میں صراحت کرنا اور دلائل کی روشنی میں گزشتہ گمراہ فرقوں کی طرف انہیں منسوب کرنا نہایت ضروری ہے ، چنانچہ ایسے لوگوں کے عیوب کو طشت از بام کرنا اشد ضروری ہے، کیونکہ ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینے سے مسلمانوں کو جو نقصان پہنچے گا وہ اس نقصان سے بہت زیادہ ہے جو ان کے عیوب کو آشکار کرنے اور لوگوں کو ان سے متنبہ کر کے تفرقہ اور دشمنی کے اندیشہ کی صورت میں ہے، اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں اور داعیان بدعت کے درمیان جدائی کرانا بہت آسان ہے جبکہ اگر داعیان بدعت کے ساتھ ان کے پیروکار اور ہمنوا بھی مل جائیں تو یہ علیحدگی کافی دشوار ہوجائے گی، اور اصل بات یہ ہے کہ جب دو ضرر جمع ہو جائیں تو ان میں سے نسبتاً ہلکے اور آسان کو اپنا لینا چاہئے، اور مکمل شر سے محفوظ رہنے کے لئے کم پر ہی اکتفاء کر لینا بہتر ہے، جیسا کہ ایسے ہاتھ کو کاٹ دینا چاہئے جو خراب ہو چکا ہو اور پورے جسم کو بیمار اور ہلاک کرنے کا سبب بن رہا ہو، تو اس ہاتھ کو تلف کرنا پورے جسم کو تلف کرنے سے بہتر ہے اور یہی شریعت کا طریقہ ہے کہ بسا اوقات بوجھل نتائج سے بچنے کے لئے ہلکے حکم کو بھی چھوڑ دیاجاتا ہے"[2]۔ محمد بن حسین آجری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص کسی کو خارجیوں والا اجتہاد کرتا دیکھے کہ اس نے حاکم پر خروج کیا ،چاہے حاکم عادل ہو یا ظالم ، اس نے ایک لشکر جمع کیا، اپنی تلوار کو بے نیام کیا مسلمانوں سے قتال کو جائز سمجھا تو وہ شخص اس |