حلال سمجھتے ہیں ، مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں اور جہالت کی اتاہ گہرائیوں میں غوطہ زن ہوکر گمراہ کن بدعات میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اسی سب کچھ کو وہ دین سمجھتے ہیں"[1] اور شریعت نے غضب الہی سے معتوب افراد اور اہل بدعت کی کتابوں کو پڑھنے سے سختی سے منع کیا ہے کیونکہ یہ ایک میٹھے زہر کی مانند ہے، جیسا کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں : عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو اہل کتاب سے ایک کتاب ملی وہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غضب کی کیفیت طاری ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے خطاب کے بیٹے ! اس گمراہی کے گڑھے میں گرنے کی ٹھانی ہے ؟! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو دین میں تمہارے پاس لایا ہوں وہ بالکل صاف اور خالص ہے، اور اگر تم ان (یہودیوں ) سے کچھ پوچھو گے تو اگر یہ تمہیں حق بتائیں تو ممکن ہے تم اسے جھٹلا دو اور اگر وہ باطل بتائیں تو ممکن ہے تم اس کی تصدیق کر دو، اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر موسی علیہ السلام بھی آج زندہ ہوتے تو ان کے لئے میری اتباع کے سوا کوئی راستہ نہ ہوتا"[2] ۔ تو اگر استفادہ کی غرض سے منسوخ شدہ آسمانی کتابوں پر نظر دوڑانا حرام ہے تو بدعت کی گمراہی اور کفر میں ڈوبے افراد کی کتابوں کا مطالعہ ا س سے بڑھ کر حرام ہے، امام ذہبی میزان الاعتدال میں محمد بن زمخشری کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "وہ نیک آدمی تھا ، لیکن مسلک اعتزال کا داعی تھا ، اللہ تعالی ہمیں اس سے پناہ میں رکھے ، لہذا اس کی تفسیر کشاف سے محتاط رہو"[3] ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ امام ذہبی کے کلام کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : "امام محمد بن ابی جمرہ رحمہ اللہ نے اپنی شرح بخاری میں ایسے علماء کا ذکر کیا ہے جو بہت سے مسائل میں غلطیاں کرتے ہیں ، اور اسی سیاق میں فرماتے ہیں: "بعض علماء ایسے ہیں جو زمخشری کی کتاب پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں اور اسے دیگر کبار اہل علم مثلاً ابن عطیہ وغیرہ پر مقدم کرتے ہیں ، اور زمخشری کی کتاب کو تعظیماً " کشاف " کا نام دیتے ہیں" ، مزید فرمایا: " اس تفسیر کشاف کا قاری اگر زمخشری کی چالبازیوں سے واقف ہو تو بھی اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس کتاب کا مطالعہ کرے کیونکہ وہ اپنی غفلت پر بے خوف نہیں ہو سکتا ، اور عین ممکن ہے کہ وہ حالت غفلت میں پڑھ رہا ہو اور اس کا کوئی شبہ دل میں تیر کر جائے اور اسے احساس بھی نہ ہو سکے، یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ لا علم لوگ اس عالم کو یہ کتاب پڑھتا پائیں تو وہ بھی اس کی تعظیم کرنے لگیں، جبکہ اس کا ایک جرم یہ بھی ہے کہ اس کتاب کو پڑھ کر وہ ایک مرجوح کتاب کو راجح پر مقدم کر رہا ہے، اور اگر یہ قاری سرے سے زمخشری کی چالبازیوں سے آگاہ ہی نہ ہو تو اس کے لئے یہ کتاب پڑھنا قطعا جائز نہیں کیونکہ اس کی چالبازیاں اسے اپنی گرفت میں لے |