Maktaba Wahhabi

44 - 79
نزاکت کے پیش نظر شریعت اسلامیہ نے اسے کسب معاش کی ذمے داریوں سے فارغ رکھا ہے‘ کیونکہ اس کے لیے اسے گھر سے باہر نکل کر جدوجہد کرنی پڑتی‘ جو اس کی جسمانی نزاکت اور دیگر مقاصد شریعت کے خلاف بات تھی۔آج کل کی جدید تعلیم یافتہ عورت‘ جو دین اسلام کی تعلیمات سے بالعموم بے بہرہ ہے‘ وہ ان دونوں حقیقتوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔حالانکہ یہ دونوں حقیقتیں ایسی ہیں جن سے مجال انکار نہیں۔مغرب میں‘ جو مساوات مردو زن کا سب سے بڑا علم بردار ہے‘ سو سالہ جدوجہد کے بعد بھی عورت مرد کے مساوی درجے پر فائز نہیں ہوسکی۔وہاں آج بھی تمام کلیدی عہدوں پر مردوں کا قبضہ ہے‘ ان کی تمام اہم ملکی وبین الاقوامی پالیسیاں مرد ہی بناتے ہیں اور ان کے تمام ضروری معاملات میں مردوں ہی کا عمل دخل ہے۔عورت کو انہوں نے صرف اپنے ذوق بوالہوسی کی تسکین کے لیے سیکرٹری شپ اور سٹینو گرافی اور مزدوروں کی سطح تک ہی محدود رکھا ہوا ہے۔صد سالہ جدوجہد کے بعد بھی مغرب میں عورت کی یہ حالت زار اس بات کی دلیل ہے کہ عورت چاہے تسلیم نہ کرے‘ وہ فطری طور پر عقلی اور جسمانی اعتبار سے مرد سے کم تر ہے۔اس لیے اس کی عزت اسی میں ہے کہ اسلام نے اس کی فطری کمزوری کے پیش نظر اس کا جو دائرہ عمل‘ گھر کی چاردیواری‘ تجویز کیا ہے‘ وہ اسے قبول کرے اور اپنی سرگرمیوں کا دائرہ اسی فطری حد کے اندر محدود رکھے۔اس سے تجاوز کرکے وہ اپنی نسوانی عظمت ووقار سے محروم ہوجائے گی‘ جیسا کہ آج مغرب کی عورت محروم ہو چکی ہے اور وہاں اس کا وجود:ع دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو کا آئینہ دار ہے۔(۲)عورتوں کو کثرت سے استغفار اور صدقہ کرنے کے علاوہ‘ خاوندوں کی ناشکری اور غیبت وبدگوئی اور لعن طعن سے بھی اجتناب کرنا چاہیے‘ تاکہ وہ جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جائیں۔
Flag Counter