Maktaba Wahhabi

87 - 728
شرح قسطلانی میں ہے:"نجد۔ بفتح النون وسکون الجیم۔ قال الخطابي: نجد من جھۃ المشرق، ومن کان بالمدینۃ کان نجدہ بادیۃ العراق، ونواحیھا، وھي شرق أھل المدینۃ"[1] [’’نجد‘‘ نون کی زبر اور جیم کی سکون کے ساتھ ہے۔ امام خطابی رحمہ اللہ نے فرمایا: نجد مشرق کی جانب ہے، جو شخص مدینے میں ہو، اس کا نجد بادیہ عراق اور اس کے نواحی میں آتا ہے اور وہ اہلِ مدینہ کا مشرقی حصہ ہی بنتا ہے] اب بعد ان دلائلِ ساطعہ و براہینِ قاطعہ کے احتمال ثالث اچھی طرح متعین ہوگیا ولا محذور فیہ۔ سوال چہارم: جناب پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ رضی اللہ عنہا کو بعد افشاءِ راز کے طلاق دیا اور طلاق عائشہ بدست علی سپرد کیا، چنانچہ حضرت علی نے بعد جنگِ جمل کے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دیا اور زوجیتِ پیغمبرِ صلی اللہ علیہ وسلم خدا سے خارج کر دیا؟ جواب: یہ محض غلط اور بے اصل بات ہے۔ اگر دعویٰ ہے تو کسی کتاب معتبر کی روایت صحیح سے، عام اس سے کہ وہ کتاب سنی کی ہو یا شیعہ کی، ثابت کیا جائے اور اس دعوے کا جھوٹا اور اس قول کا اتہام محض ہونا اس شخص پر ظاہر ہوگا، جس نے فریقین کی کتبِ معتبرہ اور روایاتِ صحیحہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت اور وفات کا واقعہ دیکھا ہوگا اور صحابہ کی روایات ازواجِ مطہرات خصوصاً حضرت عائشہ و حضرت حفصہ و اُم سلمہ وغیرہن رضی اللہ عنہما سے دیکھی ہوگی اور اس سوال کے واضع سے سخت تعجب ہے کہ اس نے یہ خیال نہیں کیا کہ کہیں قرآن و حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہے کہ زوج کی موت کے بعد زوجہ مطلقہ ہو؟! سوال پنجم: تعجب اور افسوس کا مقام ہے کہ شیخین رحمہما اللہ کو پہلوے مبارک میں جناب پیغمبرِ خدا کے عائشہ نے دفن ہونے دیا اور ان کے فرزند امام حسن کو اپنے جد امجد کے پہلو میں دفن ہونے سے باز رکھا، بلکہ لاش حسن علیہ السلام پر اس قدر تیر باران کیا کہ کئی تیر ان کی کفن میں چسپاں ہو گئے۔ اگر عائشہ کو دعویٰ ملک تھا تو اس کا ثبوت کافی ہونا چاہیے اور اگر ترکہ کا زعم تھا تو عباس عم رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کا بھی اس مکان میں ترکہ تھا۔ جواب: بروے تعجب اور افسوس کا تو یہ مقام ہے کہ ناحق دین و دنیا برباد اور خراب کرنے کو کیوں مقدس لوگوں پر تہمتیں وضع کی جاتی ہیں ؟ کسی روایتِ صحیحہ قابل الاعتماد میں نہیں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دفن ہونے نہ دیا اور اس قدر تیر باران کیا کہ کئی تیر کفن حضرت حسن رضی اللہ عنہ میں چسپاں ہوگئے۔ نعوذ باللّٰه من ہذہ التہمۃ! [2]
Flag Counter