Maktaba Wahhabi

725 - 728
سوال: [1]کیا فرماتے ہیں علماے دین اس مسئلہ میں کہ خصی کرنا جانوروں کا درست ہے یا نہیں ؟ جواب: درست نہیں ہے۔ ’’عن ابن عمر رضی اللّٰه عنہما قال: نھٰی النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم عن إخصاء الخیل والبھائم، قال ابن عمر: فیھا نماء الخلق‘‘[2]رواہ أحمد کذا في المنتقی [عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں اور چارپایوں کو خصی کرنے سے منع فرمایا۔ عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ اس (خصی کرنے) میں خلق کی نشو و نما اور فروغ ہے۔ اس کو احمد نے روایت کیا ہے، جیسا کہ منتقی الاخبار میں ہے] علامہ شوکانی رحمہ اللہ ’’نیل الأوطار‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’حدیث ابن عمر في إسنادہ عبد اللّٰه بن نافع، وھو ضعیف، وأخرج البزار بإسناد صحیح من حدیث ابن عباس رضی اللّٰه عنہما أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم نھیٰ عن صبر الروح وعن إخصاء البھائم نھیاً شدیدا، قولہ: ’’عن إخصاء الخیل‘‘ الإخصاء سل الخصیۃ، قال في القاموس: وخصاہ خصیا: سل خصیتہ۔ وفیہ دلیل علی تحریم خصي الحیوانات، وقول ابن عمر رضی اللّٰه عنہما : فیھا نماء الخلق أي زیادتہ، أشار إلی أن الخصی مما تنموا بہ الحیوانات، ولکن لیس کل ما کان جالباً لنفع یکون حلالا، بل لا بد في عدم المانع، وإیلام الحیوان ھھنا مانع لأنہ إیلام، لم یأذن بہ الشارع بل نھٰی عنہ‘‘[3] انتھی [عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کی اسناد میں عبد الله بن نافع راوی ضعیف ہے۔ امام بزار نے صحیح اسناد کے ساتھ عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا ہے کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی روح چیز کو باندھنے (اور اسے قتل کرنے) اور جانوروں کو خصی کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا۔ اخصا کا معنی خصیے کو نکالنا اور ایسے ہی فیروز آبادی نے قاموس میں لکھا ہے، اس میں حیوانات کو خصی کرنے کی حرمت کی دلیل ہے۔ عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما کا خصی کرنے کے بارے میں یہ کہنا کہ اس سے خلق کی نشو و نما ہوتی ہے، یعنی اس میں بڑھوتری ہوتی ہے، انھوں نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ خصی کرنا ایک ایسا عمل ہے، جس سے حیوانات میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہر وہ چیز، جو کسی نفع کو حاصل کرنے والی ہو، وہ حلال ہو، بلکہ یہاں عدمِ مانع کا ہونا ضروری ہے اور یہاں جانور کی اذیت مانع ہے، کیونکہ خصی کرنے میں جانور کو ایک ایسی
Flag Counter