Maktaba Wahhabi

520 - 728
مطابق عمل کیا جائے، اس لیے حضور والا سے یہ عرض ہے کہ اس امر میں حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک کیا حکم ہے؟ موافق قرآن پاک و احادیث شریفہ کے جواب سے شاد فرمایا جائے، تاکہ اسلام میں رخنہ نہ ہو۔ زیادہ نیاز حد ادب۔ فقط شیخ چھٹو میاں از مقام آسن سول قصائی محلہ ندی پار ضلع بردوان، مورخہ (۲؍ ذیقعدۃ ۱۳۳۰ھ) بروز دو شنبہ جواب: اس صورت میں موافق قرآن پاک اور حدیث شریف کے یہ حکم ہے کہ اس شخص نے جس نے غصہ کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دیا ہے، اگر وہ ایسا غصہ تھا، جس میں وہ از خود رفتہ ہوگیا تھا، یا ایسا غصہ تھا کہ جس میں وہ از خود رفتہ تو نہیں ہوگیا تھا، مگر ایسا تھا کہ اس میں الفاظِ طلاق اس کے منہ سے بلا قصد نکل گئے تھے، تو ان دونوں صورت میں طلاق اس کی بیوی پر واقع نہیں ہوئی اور اگر ایسا خفیف غصہ تھا کہ جس میں اس شخص نے الفاظِ طلاق بالقصد منہ سے نکالے تھے تو اس صورت میں اس کی بیوی پر صرف ایک طلاق رجعی پڑی، جس میں وہ شخص عدت کے اندر رجعت کر سکتا ہے، یعنی دو معتبر آدمیوں کے روبرو یہ کہہ کر کہ ’’میں نے جو اپنی فلاں بیوی کو طلاق دی تھی، اس طلاق کو واپس لے لیا‘‘ طلاق واپس لے سکتا ہے، بعد رجعت پھر وہ بیوی اس کی زوجہ ہوجائے گی اور اگر عدت گزر چکی ہو تو وہ شخص اس بیوی سے بہ تراضی طرفین پھر نکاح کر سکتا ہے اور وہ صورت جس میں تین طلاق پڑ جاتی ہیں اور پھر اس میں نہ رجعت جائز ہوتی ہے اور نہ بغیر حلالہ کے شوہر اول سے نکاح جائز ہوتا ہے، وہ صورت اور ہے، صورتِ مذکورہ سوال اس قبیل سے نہیں ہے۔ صورت مذکورہ سوال کا وہی حکم ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ زیلعی (ص: ۳۰ مطبوعہ علوی) میں ہے: ’’أخرج أبو داود وابن ماجہ عن صفیۃ بنت شیبۃ عن عائشۃ سمعت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یقول: (( لا طلاق ولا عتاق في إغلاق )) [1]انتھی۔ قال أبو داود: أظنہ الغضب۔ یعني الإغلاق۔ قال ابن الجوزي: قال ابن قتیبۃ: الإغلاق الإکراہ، ورواہ الحاکم في المستدرک، وقال: علی شرط مسلم۔ قال في التنقیح: وقد فسرہ أحمد أیضاً بالغضب۔ قال شیخنا: والصواب أنہ یعم الإکراہ والغضب والجنون، وکل أمر انغلق علیٰ صاحبہ علمہ وقصدہ، مأخوذ من غلق الباب‘‘[2]اھ [ابو داود اور ابن ماجہ نے صفیہ بنت شیبہ سے روایت کیا ہے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتی ہیں ، کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’زبردستی میں نہ طلاق ہوتی ہے اور نہ غلام آزاد ہوتا ہے۔‘‘ امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں ’’اِغلاق‘‘ غضب اور غصے کے معنی میں ہے۔ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے کہا: ابن قتیبہ نے کہا کہ ’’اِغلاق‘‘ کا معنی جبر و اکراہ ہے۔ اس کو امام حاکم رحمہ اللہ نے مستدرک میں
Flag Counter