Maktaba Wahhabi

513 - 728
وضع نہیں ہوئے ہیں ، بلکہ وہ طلاق کا بھی اور کسی اور مفہوم کا بھی احتمال رکھتے ہیں ، لہٰذا ان سے (طلاق کی) تعیین یا اس کی دلالت ضروری ہے] ’’وقال إبراھیم: إن قال: لا حاجۃ لي فیک، نیتہ‘‘ (صحیح بخاري، مصری: ۴/ ۱۶۹) [ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر وہ کہے کہ مجھے تیری کوئی ضرورت نہیں ، تو اس کی نیت کا اعتبار ہو گا] وقال تعالیٰ:﴿وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ [بقرۃ، ع: ۳۰] [اور جب تم عورتوں کو طلاق دو، پس وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انھیں اس سے نہ روکو کہ وہ اپنے خاوندوں سے نکاح کر لیں ، جب وہ آپس میں اچھے طریقے سے راضی ہوجائیں ] وقال تعالیٰ:﴿وَ اُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآئَ ذٰلِکُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ﴾[نساء، ع: ۴] [اور تمھارے لیے حلال کی گئی ہیں جو ان کے سوا ہیں کہ اپنے مالوں کے بدلے طلب کرو، اس حال میں کہ نکاح میں لانے والے ہو، نہ کہ بدکاری کرنے والے] وقال تعالیٰ:﴿اَلزَّانِیْ لاَ یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً اَوْ مُشْرِکَۃً وَّالزَّانِیَۃُ لاَ یَنْکِحُھَا اِِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [سورۃ النور، ع: ۱] [زانی نکاح نہیں کرتا مگر کسی زانی عورت سے، یا کسی مشرک عورت سے، اور زانی عورت، اس سے نکاح نہیں کرتامگر کوئی زانی یا مشرک۔ اور یہ کام ایمان والوں پر حرام کر دیا گیا ہے] و اللّٰه تعالیٰ أعلم کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۶؍ محرم ۱۳۲۷ھ) سوال: زید نے اپنی بی بی ہندہ کو اتہام حمل حرام لگایا اور اپنے گھر لے جا کر خوب بندوبست کیا اور دائیوں کے ذریعہ حمل کی خوب تحقیق کی۔ جب کسی طرح سے حمل ثابت نہ ہوا تو ہندہ کو یہ کہہ کر تو میرے کام کی نہیں ، اپنے گھر سے نکال دیا۔ اب وہ اپنے میکے میں ہے۔ والد ہندہ نے اپنے داماد کو نوٹس بھی دیا کہ اپنی بیوی کو لے جاؤ اور اپنے گھر رکھو، ورنہ طلاق دو۔ بجواب نوٹس شوہر ہندہ نے صاف لفظوں میں لکھ دیا کہ میری بی بی میرے کام کی نہیں ہے، اس کو اختیار ہے، جو چاہے کرے۔ اس کو بھی عرصہ بہت ہوگیا، اس صورت میں ہندہ کو کیا کرنا چاہیے؟ آیا اپنا نکاح کسی دوسرے شخص سے کرے یا نہیں ؟ اس کا شوہر تو بجواب نوٹس صاف لکھ چکا کہ ہندہ میرے کام کی نہیں ہے، وہ جو چاہے سو کرے، اسے اختیار ہے؟ جواب: اس صورت میں ہندہ پر طلاق واقع ہوگئی۔ اس لیے کہ گو زید (شوہر ہندہ) کے یہ الفاظ کہ ’’میری بی بی میرے کام کی نہیں ہے، اس کو اختیار ہے، جو چاہے وہ کرے‘‘ صریح طلاق نہیں ، بلکہ کنایہ طلاق ہیں ، لیکن کنایاتِ طلاق سے
Flag Counter