Maktaba Wahhabi

403 - 728
[منتقی میں عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ بلاشبہ ثابت بن قیس کی بیوی نے اپنے خاوند سے خلع لیا تو نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا] کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔ الجواب صحیح عندی۔ محمد ضمیر الحق عفي عنہ۔ الجواب صحیح۔ وصیت علی، مدرس دوم مدرسہ احمدیہ آرہ۔ الجواب صحیح۔ ألفت حسین۔ أصاب من أجاب، أبو محمد إبراہیم۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمود، عفا اللّٰه عنہ۔ الأولاد المتولدۃ قبل النکاح أولاد الزنا بلاشبھۃ، و اللّٰه أعلم [نکاح سے پہلے پیدا ہونے والی اولاد بلاشبہ اولادِ زنا (حرامی) ہوتی ہے] و الجواب صحیح۔ شیخ حسین بن محسن عرب۔ سوال: مسمی عبد الله نے ہندہ بی بی سے عدت کے اندر نکاح کیا اور صحبت بھی کیا، پھر چند لوگوں نے اس کو روکا اور صحبت سے منع کیا، پھر جو عدت کا ایام باقی تھا، اس کو اختتام کر کے پھر تجدیدِ نکاح کا کر دیا۔ اب کوئی عالم کہتے ہیں کہ اول نکاح جو عدت میں واقع ہوا، باطل ہے، اب تم کو پھر عدت کرنا ہوگا۔ پہلی عدت کفارہ میں گئی ہے تو بعد گزرنے عدت جدیدہ کے نکاح کر لینا، پس اس صورت میں نکاح پہلا صحیح یا دوسرا ہوگا یا اب جو حساب میں تیسرا ہے؟ جواب: اس صورت میں اختلاف ہے کہ آیا ہندہ پر دو مستقل عدتیں واجب ہیں یا دو متداخل عدتیں ؟ ایک قول یہ ہے کہ دو مستقل عدتیں واجب ہیں ، یعنی ہندہ پر یہ واجب ہے کہ اولاً پہلی عدت کرے اور جب وہ پوری ہو جائے، تو اس وقت سے دوسری عدت از سر نو شروع کرے اور جب وہ بھی پوری ہو جائے تب اگر نکاح کرے تو وہ نکاح صحیح ہوگا اور تا انقضائے اس دوسری عدت کے عبد الله اور ہندہ میں تفریق رہنا چاہیے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ دو متداخل عدتیں واجب ہیں ، یعنی ہندہ پر یہ واجب ہے کہ اولاً پہلی عدت پوری کرے اور اسی پہلی عدت میں دوسری عدت بھی اس وقت سے شروع ہوجاتی ہے، جب سے کہ عبد الله اور ہندہ میں تفریق واقع ہوئی ہے۔ یعنی جب سے عبد الله نے ہندہ سے صحبت ترک کر دی ہے اور جب پہلی عدت پوری ہوجائے تو دوسری عدت کا حصہ جس قدر باقی رہ گیا ہے، اسی قدر کو پورا کر دے، دوسری عدت از سر نو اس پر واجب نہیں ہے۔ پہلا قول حضرت عمر و حضرت علی رضی اللہ عنہما کا ہے اور یہی قول ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا ہے اور حسبِ روایتِ اہلِ مدینہ یہی قول امام مالک رحمہ اللہ کا ہے اور اسی قول کو امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ نے اختیار کیا ہے اور دوسرا قول زہری رحمہ اللہ اور سفیان ثوری رحمہ اللہ کا ہے اور بروایت یہی قول امام مالک رحمہ اللہ کا ہے اور اسی کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔ پہلا قول احوط ہے اور اس احوط قول کے مطابق ہندہ کے دونوں نکاح عدت کے اندر واقع ہوئے اور جو نکاح کہ عدت کے اندر واقع ہو، وہ نکاح صحیح نہیں ہے، اس وجہ سے اس احوط قول کے موافق ان دونوں نکاحوں میں کوئی بھی صحیح نہیں ہوا۔ لقولہ تعالیٰ:﴿وَ لَا تَعْزِمُوْا عُقْدَۃَ النِّکَاحِ حَتّٰی یَبْلُغَ الْکِتٰبُ اَجَلَہٗ﴾ [بقرۃ، رکوع ۳۰]
Flag Counter