Maktaba Wahhabi

243 - 728
اور تمیم داری کو کہ نمازِ تراویح کی پڑھائیں وہ دونوں لوگوں کو گیارہ رکعت،[1] پس مطابقت دونوں روایتوں میں یوں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ مختلف تھے، کبھی بیس رکعت پڑھتے تھے اور کبھی گیارہ۔ باقی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جمع کرنا گیارہ رکعت ہی پر ثابت (ہے)۔ پس اگر کوئی کبھی بیس رکعت پڑھ لے تو اس پر انکار نہیں پہنچتا۔ ہاں گیارہ کا پڑھنا بہ نسبت بیس کے اولیٰ اور افضل ہے، اس واسطے کہ یہی ہے نماز رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے خلفا کی، پس اتباع ساتھ سنتِ رسول الله اور سنتِ خلفا کے نیک (ٹھیک) ہے۔ قال اللّٰه تعالیٰ:﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ﴾ [الأحزاب: ۲۱] [ الله تعالیٰ نے فرمایا: بلاشبہ یقینا تمھارے لیے الله کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے] وقال النبي: (( علیکم بسنتي وسنۃ الخلفائِ الراشدین المھدیین )) [2] الحدیث۔ [نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری سنت کو اور ہدایت یافتہ خلفاے راشدین کے طریقے کو اختیار کرو] الغرض بیس رکعت کا پڑھنا جائز ہے، بشرطیکہ التزام نہ کرے، اس لیے کہ مباح شَے کے التزام کرنے سے وہ شَے بدعت ہوجاتی ہے۔ پس اس زمانے میں جو لوگوں نے بیس ہی کا التزام کر لیا ہے بدعت ہوگا۔ ’’قال عبد اللّٰه رضی اللّٰه عنہ : لا یجعل أحدکم للشیطان نصیباً من صلاتہ یری حقا علیہ ألا ینصرف إلا عن یمینہ، ولقد رأیت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کثیراً ینصرف عن یسارہ[3] رواہ مسلم و ابن ماجہ، وقال الطیبي: فیہ إن من أصر علی أمر مندوب وجعل عرفا ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال فکیف علی من أصر علی بدعۃ أو منکر‘‘[4]کذا في حاشیۃ ابن ماجہ۔ [عبد الله رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کوئی شخص اپنی نماز میں شیطان کا حصہ مقرر نہ کرے۔ (وہ اس طرح) کہ صرف دائیں طرف سے گھومنا ( الله کا حق اور اپنا) فرض سمجھ لے۔ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر بائیں طرف سے گھومتے دیکھا ہے۔ اس کو امام مسلم اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور اس کے بارے میں طیبی رحمہ اللہ نے کہا ہے: یقینا جس نے مندوب امر پر اصرار کیا اور اس کو عرف بنا دیا اور رخصت پر عمل نہ کیا تو شیطان نے اسے گمراہ کر دیا تو اس وقت کیا حال ہوگا، جب وہ کسی بدعت اور منکر کام پر اصرار کرے؟] و اللّٰه أعلم بالصواب۔ حررہ: أبو المکارم محمد علي عفي عنہ۔ محمد عبد اللّٰه (۱۲۹۱ھ)
Flag Counter