Maktaba Wahhabi

238 - 728
موقوف کرنے کا حق ہے کہ وہ کام میں پہلو تہی کرے یا اس کام کے لائق نہیں اور اس پرانے امام میں ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات نہیں پائی جاتی۔ شامی (۴/ ۴۲۱ چھاپہ مصر) میں ہے: ’’واستفید من عدم صحۃ عزل الناظر بلاحجۃ، عدمھا لصاحب وظیفۃ بغیر حجۃ وعدم أھلیۃ‘‘ و اللّٰه أعلم بالصواب [نگران کو بلا دلیل معزول کرنے کے صحیح نہ ہونے سے اس بات کا فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ وظیفہ خوار کو بلا دلیل اور اس کے نااہل ثابت ہوئے بغیر معزول کرنا بھی درست نہیں ہے] کتبہ: محمد عبد اللّٰه سوال: ایک مولوی صاحب نے وعظ میں بیان کیا کہ اسلام میں کفو یعنی ذات پات کا کچھ خیال نہیں ۔ یہ جو شیخ، سید، مغل، پٹھان، جولاہا، چاشا، خوشباش مشہور ہیں ، ان سب کا کچھ اعتبار نہیں ۔ اگر دین دار و پرہیز گار ہوں ، آپس میں بیاہ شادی دے سکتے ہیں ۔ اگر سید نماز نہ پڑھے تو اس کی سیدی کیا کام آئے گی؟ اس پر جولاہا لوگوں نے گرفت کیا کہ ہم لوگوں کو جولاہا کیوں کہا؟ مومن کیوں نہیں کہا؟ جولاہا بول کر گالی گلوچ اور طعن و تشنیع کیوں کیا؟ صرف اسی بات پر اُن مولوی صاحب کو اندازاً برس روز سے بند، یعنی خارج از جماعت اور حقوق ستہ سے اور امامت سے باز رکھا ہے۔ اب دریافت یہ ہے کہ مولوی صاحب نے جس حیثیت سے کہا ہے، اس سے گالی گلوچ اور طعن و تشنیع صادق آتی ہے یا نہیں ؟ اگر آتی ہے تو خارج از جماعت اور حقوق ستہ اور امامت سے معزول کرنے کے قابل ہیں یا نہیں ؟ اگر نہیں ہیں تو وہ لوگ گنہگار ہیں یا نہیں ؟ جو سردار لوگ ایسی حرکتیں کریں اور باز نہ آئیں تو وہ لوگ سرداری کے قابل ہیں یا نہیں ؟ عالم کی بے عزتی سے توبہ کی ضرورت ہے یا نہیں ؟ جواب: صورت مسؤلہ میں عبارتِ سوال کے پڑھنے سے جو امر ظاہر ہوتا ہے، یہ ہے کہ مولوی صاحب نے جس حیثیت سے یہ لفظ استعمال کیا ہے، اس پر کسی طرح گالی گلوچ اور طعن و تشنیع صادق نہیں آتی۔ ہاں اگر کوئی شخص کسی خاص شخص یا خاص جماعت کے حق میں یہ لفظ یا کوئی اور لفظ، جس کو وہ خاص شخص یا خاص جماعت اپنے حق میں ناپسند کرتی اور اس سے چڑھتی ہو، استعمال کرے تو ایسے لفظ کا استعمال کرنے والے کو توبہ کرنا اور اس خاص شخص یا خاص جماعت سے معافی مانگنا لازم ہے۔ الله تعالیٰ نے فرمایا ہے:﴿وَلاَ تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ﴾ [الحجرات: ۴۹] یعنی آپس میں کوئی کسی کو ایسے نام سے نہ پکارے جو اس کو برا لگتا ہو، یعنی وہ اس سے چڑھتا ہو۔ الحاصل مولوی صاحب نے جس حیثیت سے یہ لفظ استعمال کیا ہے، اس سے گالی گلوچ اور طعن اور تشنیع اصلاً مفہوم نہیں ہوتی، ایسی حالت میں ان لوگوں کو جنھوں نے مولوی صاحب کو بوجہ استعمال اس لفظ کے بند کیا ہے، لازم ہے کہ اس کام سے باز آئیں اور مولوی صاحب کو جماعت میں داخل کر کے اُن کے ساتھ اسلامی برتاؤ کریں ، ضد اور تعصب چھوڑ دیں اور ((کونوا عباد اللّٰه إخوانا )) [1] [اور الله کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ] کے مصداق بن جائیں ۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۲۰؍ربیع الأول ۱۳۳۵ھ)
Flag Counter