Maktaba Wahhabi

346 - 432
موضوع تحمل واقعہ میں شاہدین کے فہم کا اختلاف ہے، ورنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قبول روایت میں دیگر صحابہ کی منقولات کو بلا کسی تردد کے قبول کرتے تھے۔ اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ ھ)نے بھی ’الرسالہ‘ میں اس بات پرکافی زور دیا ہے کہ صحابہ کو سنت کی روایت میں عین اسی طرح خیال کرنا چاہیے جس طرح کہ کسی واقعہ کے تحمل اور پھر اس کی روایت میں شاہدین کو خیال کیا جاتا ہے۔۲؎ ٭ بسا اوقات اِستدراکات کی نوعیت ’درایت حدیثی‘ کے بجائے یوں ہوتی ہے کہ اِستدراک کرنے والا صحابی روایت کو معلومات دین کے صریحی مخالف پانے کی بنا پر ماننے سے انکار کردیتا ہے کہ راوی حدیث اپنے حافظہ کے اعتبار سے کسی نسیان کا شکار ہوسکتا ہے۔ کیونکہ صحابہ باہم ایک دوسرے کی عدالت پر تو اتفاق کرتے تھے، لیکن نسیان کی غلطی کی بحث بہرحال ان میں موجود تھی کیونکہ صحابیت کے شرف سے بشری قوی کی کمزوریوں کا اِزالہ نہیں ہو جایا کرتا۔ انہی امثلہ کی روشنی میں بعد ازاں محدثین کرام رحمہم اللہ نے اصول مقرر فرمایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب عادل ہیں ، لیکن محدثین کرام رحمہم اللہ میں سے کوئی بھی اس بات کا دعویدار نہیں کہ صحابہ کی عدالت کا لازمہ یہ ہو کہ ان کی ضبط سے متعلق غلطیوں کو بھی قبول کرلیا جائے۔ ذخیرہ حدیث میں موجود مثالوں میں سے عام طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عمومی اِستدراکات علی الصحابہ اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ حدیث رسول میں اِستدراکات کاآغاز اگرچہ عہد صحابہ ہی سے ہو گیا تھا، لیکن ان کے منہج اِستدراک یا تنقیدی طرز عمل سے یہ بات قطعی طور پر ثابت نہیں ہوتی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ حدیث کو محض عقل یا قرآن کے خلاف ہونے کی بنا پر رد کردیا ہو اور اس کے صحیح ہونے کی کوئی پروا نہ کی ہو کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عام رویہ ، فطری رجحان اور ایمان یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی طرف نسبت کے ثبوت کے یقینی ہوجانے کے بعد کوئی حدیث قرآن حکیم یا عقل عام کے خلاف ہر گز نہیں ہوسکتی ہے۔ ہاں ایک بات ضرور تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ ناقلین سنت صحابہ بھی آخر انسان تھے اور تحمل واقعہ کے وقت فہم واقعہ کے سلسلہ میں کسی غلط فہمی کا شکار ہو سکتے تھے، لہٰذا واقعہ کے کسی خاص پہلو کی طرف اگر حضرات صحابہ کرام نے اپنے ساتھیوں کی توجہ مبذول کروا دی جو کہ دیگر حضرات کی نظروں سے اُوجھل رہ گیا تھا تو اس میں اچنبھے والی کوئی بات نہیں ہے۔ بلکہ وہ ہستیاں تو اپنے اس طرز عمل کی بنیاد پر خراج تحسین کی مستحق قرار پاتی ہیں جنہوں نے عہد رسالت میں ظہور پذیر ہونے والے کسی بھی واقعہ کی مکمل عکسی تصویر ہمارے سامنے اس انداز اور اس اسلوب میں پیش فرمادی کہ اب صدیاں گذرنے کے بعد بھی گویا یہ تصویر اپنے تمام تر پہلوؤں کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہے اور اب ہم اس میں کسی قسم کی غلطی کا شکار نہیں ہوسکتے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حدیث کی قبولیت کے سلسلہ میں طرزِ عمل مسلمانوں کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دینی معاملات میں مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں ، اس لئے کہ وہ شمع رسالت سے بغیر کسی واسطے کے روشنی حاصل کرنے والے ہیں ۔ قبول حدیث کے لئے ان کا جو منہج تھا وہی ہمارے لئے قابل قبول ہونا چاہئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کے پاس اگر کسی حدیث کا علم نہ ہوتا تو دیگر صحابہ سے اس کے بارے میں استفسار فرماتے، حدیث مل جانے کے بعد وہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے ا س کے ثابت ہونے کی تو تحقیق کیا کرتے تھے، لیکن ثبوتِصحت کے بعد کبھی بھی انہوں نے اس حدیث کو نہ توقرآن کریم پر پیش کیا، نہ اپنی عقل پر اور نہ ہی اس کے قبول کرنے کے لئے راوی کے فقیہ ہونے کو شرط بنایا۔ جیسا کہ کبار صحابہ کے درج ذیل واقعات سے ثابت ہوتا ہے:
Flag Counter