تمہید ’جدید فکر اسلامی‘ کی اصطلاح زندگی کے تمام پہلوؤں پر مشتمل ہے، جس کا مقصود تمام شعبہ ہائے زندگی سیاست، معاشرت ،اقتصاد اور علم کے میدان میں اسلامی تعلیمات کی وضاحت وتشریح کرنا ہے۔یہ ایک بے پایاں فکر ہے جس کے علمبرداروں نے دعوت و اصلاح کے میدان میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں ۔ اس فکر کے حاملین علماء میں سے الشیخ محمد رشید رضا رحمہ اللہ (م۱۳۵۴ھ)صاحب المنار، شیخ حسن البنا رحمہ اللہ (م ۱۳۶۸ھ)، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ (م ۱۴۰۰ھ)، سید قطب رحمہ اللہ (م ۱۳۸۶ھ)اور شیخ مصطفی سباعی رحمہ اللہ وغیرہ کے علاوہ عصر حاضر کے معروف اسکالر محمد الغزالی رحمہ اللہ شامل ہیں ، جو تصنیف و تالیف کے میدان میں ایک مقام رکھتے تھے۔ ’جدید فکر ِ اسلامی‘ چھان بین اور تحقیق و تصحیح کی محتاج ہے، کیونکہ یہ’ فکر‘ عقل کی پیدوار ہے، جس میں غلطی کا امکان موجود رہتا ہے، کیونکہ عقل پر مبنی ا فکار اللہ کی طرف سے نازل کردہ نہیں کہ ان کومن و عن قبول کرلیا جائے۔ مزید براں عقل کسی متعین حد کی پابند نہیں ہوتی کہ اس سے تجاوز نہ کیا جاسکے۔۱؎ الشیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ ۱۹۱۷ء کو مصر کے صوبہ بحیرہ کی معروف بستی نکلا العنب میں پیدا ہوئے۔ یہ وہی بستی ہے جہاں نامور مفکرین سلیم البشری رحمہ اللہ (م ۱۳۳۵ھ)،شیخ ازہر رحمہ اللہ ،محمد عبدہ ، رحمہ اللہ (م ۱۳۲۳ھ)محمد البھی رحمہ اللہ اور شیخ الغزالی رحمہ اللہ کے استاد محمود شلتوت رحمہ اللہ پیدا ہوئے۔ محمد الغزالی رحمہ اللہ نے متعدد کتب لکھیں جن میں سے خلق المسلم ، عقیدۃ المسلم، فقہ السیرۃ، ظلام من القرب، من معالم الحق، کیف نفہم الإسلام، مع اللّٰہ ، معرکۃ المصحف، رکائز الإیمان، قذائف الحق، مائۃ سؤال حول الإسلام وغیرہ قابل ذکر کتب ہیں ۔ اور سب سے آخر میں معرکۃ الآراء کتاب السنۃ النبویۃ بین أہل الفقہ و أہل الحدیث تصنیف کی۔ موصوف کی یہ کتاب منفرد آراء کا مجموعہ ہے۔ جس میں انہوں نے اپنی رائے کو ضعیف استدلالات کے ساتھ پیش کیا ہے، متعدد عرب علماء نے اس کتاب کا تنقیدی جائزہ لیاہے اور اس کے جواب میں مستقل کتابیں لکھیں ہیں ۔ ٭ شیخ سلمان بن فہد العودہ حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’محمد الغزالی کی پہلی کتب سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ سنت پر ایمان لانے اور سنت پر عمل کو واجب سمجھنے اور اہل قرآن (جوصرف قرآن کو مانتے ہوئے حدیث کا انکار کرتے ہیں ) کا رد کرنے والوں میں سے ہیں ۔ جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب مستقبل الاسلام میں مستقل عنوان اہل القرآن و اہل الحدیث قائم کیا ہے۔ اس عنوان کے تحت انہوں نے اہل قرآن کا رد کیا ہے اور اس امر کو واضح کیا ہے کہ سنت کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے کیونکہ اسلامی تعلیمات کی تفاصیل قرآن میں نہیں ہیں ، بلکہ حدیث ہی قرآن کی بہترین تشریح ہے۔اسی طرح اپنی کتاب کیف نفہم الإسلام میں فی دائرۃ السنۃکے عنوان سے ایک فصل قائم کی ہے اور اس میں سنت کی تعریف، اقسام اور ضعیف و صحیح پر بحث کی ہے،لیکن اپنی آخری مؤلفات میں انہوں نے اس موضوع السنۃ النبویۃ بین أہل الفقہ واہل الحدیث کو بطور خاص ذکر کیا ہے اور اس پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے، لیکن موصوف نے کہیں بھی اہل فقہ اور اہل حدیث سے اپنی مراد کو واضح نہیں |