عدم الانتشار إذا کان خبرا شأنہ الانتشار قرینۃ توہن الخبر وتخرجہ عن علبۃ الظن بصدقہ إلی الشک فیہ أو إلی غلبۃ الظن بکذبہ أو نسخہ۴۸؎ ’’اِمام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ) کے ہاں اصول یہ ہے کہ عام الوقوع امور سے متعلق اخبار آحاد اگر کثرت طرق سے مروی نہ ہوں اور نہ ہی عمل جاری ہو تو ان کو رد کر دینا چاہیے، کیونکہ اگر بات تو ایسی ہوکہ اس کو نقل کرنے والے بہت سے ہونے چاہییں ، لیکن خبر مشہور اور معروف نہ ہو تو یہ ایک ایسا قرینہ ہے جو خبر میں ضعف پیدا کرتا اور اس کے بارے میں سچائی کا گمان پیدا کرنے کے بجائے اسے مشکوک کرتا اور اس کے جھوٹا یا منسوخ ہونے کا گمان پیدا کرتا ہے۔‘‘ ٭ اِمام سرخسی رحمہ اللہ (م ۴۹۰ ھ) نے اسی استدلال کو مزید وضاحت سے یوں بیان کیا ہے: الغریب فی ما یعم بہ البلوی ویحتاج الخاص والعام إلی معرفتہ للعمل بہ فإنہ زیف لأن صاحب الشرع کان مأمورا بأن یبین للناس ما یحتاجون إلیہ وقد أمرہم بأن ینقلوا عنہ ما یحتاج إلیہ من بعدہم فإذا کانت الحادثۃ مما تعم بہ البلوی فالظاہر أن صاحب الشرع لم یترک بیان ذالک للکافۃ وتعلیمہم وإنہم لم یترکوا نقلہ علی وجہ الاستفاضۃ فحین لم یشتہر النقل عنہم عرفنا أنہ سہو أو نسخ۔ ألا تری إن المتأخرین لما نقلوہ اشتہر فیہم فلو کا ن ثابتا فی المتقدمین لاشتہر أیضا وما تفرد الواحد بنقلہ مع حاجۃ العامۃ إلی معرفتہ۴۹؎ ’’ ایسی صورت کا حکم بیان کرنے کے لیے جو عام الوقوع اور جس کو جاننے کی ہر خاص وعام کو ضرورت ہے ، اگر خبر واحد وارد ہو تو وہ ناقابل اعتبار ہوگی، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی یہ ذمہ داری تھی کہ جن باتوں کے جاننے کی لوگوں کو احتیاج ہے، وہ ان کے سامنے بیان کریں اور آپ نے لوگوں کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ آپ کے ارشادات کو بعد میں آنے والوں تک پہنچائیں ۔ چنانچہ اگر کئی صورت عام الوقوع ہے تو ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعلیم بھی سب لوگوں کو دی ہوگی اور لوگوں نے بھی اس کو شہرت واستفاضہ کے ساتھ نقل کیا ہوگا۔ اب اگر ایسے کسی مسئلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی روایت بطریق شہرت مروی نہیں تو ہم سمجھ لیں گے کہ یا وہ راوی کی بھول ہے یا منسوخ ہوچکی ہے۔ دیکھتے نہیں کہ اسی روایت کو جب بعد کے لوگ نقل کرتے ہیں تو وہ ان میں مشہور ہوجاتی ہے۔ سو اگر پہلے لوگوں میں بھی وہ ثابت ہوتی تو ان میں بھی اسی طرح مشہور ہوتی اور ایسا نہ ہوتا کہ اس کو اِکا دُکا راوی نقل کرتے، حالانکہ سب لوگ اس کو جاننے کے محتاج ہیں ۔‘‘ اصول کا تنقیدی جائزہ خبر اگر کسی ایسے مشہور واقعہ کے بارے میں ہو جو سب کے سامنے ہوا ہو اور پھر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اسے نقل نہ کیا ہو تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ روایت ثابت نہیں ہوگی، کیونکہ خبر کا ذریعہ صرف فرد ہے زیادہ افراد کا ہونا شرط نہیں ۔ بلوائے عامہ سے متعلقہ روایات کے لئے یہ کافی ہے کہ اسے ایک یا دو راوی اگر آگے روایت کردیں تو اسے روایت تسلیم کیا جائے اور اس کے لئے عموم بلویٰ سے روایت کو بھی شرط قرار دینا سراسر باطل ہے، کیونکہ افراد کی تعیین کا بھی کوئی ضابطہ مقرر نہیں ہے۔ یہ چیز عقل سلیم کے بھی خلاف ہے کہ ایک جگہ موجود پچاس افراد سے اگر واقعہ پوچھا جائے یا نقل کرنے کو کہاجائے توکیا ضروری ہے کہ سب ہی اسے نقل کریں ؟ اسی طرح اگر واقعہ کے بارے میں خبر دیتے وقت سامع ایک ہی ہو تو کیا اس ایک کی بات کو تسلیم نہیں کیا جاتا؟ پھر یہ بھی فرمائیے کہ کیا عموم بلویٰ سے روایت کا شرط ہونا صرف صحابہ رضی اللہ عنہم کے لئے ہی ہے یا بلوائے عامہ سے متعلق حدیث کی سند کے تمام طبقات میں بھی؟ اگر یہ شرط تمام طبقات کے لیے ہے، تو پھر ایسی تمام اخبار آحاد کے بارے میں ایک اساسی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں تواتراً کیوں نہیں نقل کیا گیا؟ ٭ ڈاکٹر عبدالکریم زیدان حفظہ اللہ اپنی کتاب الوجیزفی أصول الفقہ میں ’سنت ‘کی بحث میں علمائے احناف کے درایتی نقد |