فرق ہے۔’ ضعیف قراء ت‘ وہ ہے جو غیر ثابت شدہ ہو اور ’شاذ‘ وہ ہے جو ثابت شدہ تو ہو لیکن کثرت ِروایت یا عدم استفاضہ کی شرط کے معدوم ہونے کی بنا پر بطور قرآن قبول نہ کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ’ شاذہ قراء ت‘ سے صحیح موقف کے مطابق بطور حدیث علماء استدلال کرتے ہیں ، جبکہ’ ضعیف قراء ت‘ سے استدلال نہ کرنے پر آئمہ کے مابین کوئی اختلاف نہیں ۔۳۷؎ فن حدیث میں شاذ روایت حدیث میں ثقہ راوی اپنے سے زیادہ ثقہ یا ثقات کی ایک جماعت کی مخالفت کرے تو اوثق یا ثقات کی روایت کو محدثین عظام رحمہم اللہ ’ محفوظ‘ اور ثقہ کی روایت کو ’شاذ‘ کہتے ہیں ۔۳۸؎ واضح ہواکہ فن حدیث میں بھی شاذ ضعیف کو نہیں کہتے، کیونکہ اگر ایک صحیح و ضعیف روایت ٹکرا جائے تو یہ مختلف الحدیث اور مخالفت الثقات کی بحث نہیں ، بلکہ اصطلاحات محدثین رحمہم اللہ کی رو سے اسے المنکر اور المعروف کی متوازی اصطلاحات سے بیان کیا جاتا ہے۔ ہاں جب دو صحیح روایتیں ٹکرا جائیں تو تعارض ہونے کی بنا پر جمع ونسخ معلوم نہ ہونے کی صورت میں اکثریت کی بات کو اقلیت پر ترجیح دینا یا ثقہ کے بالمقابل اوثق کو ترجیح دینا ’شاذ‘ کہلاتا ہے، جو ترجیح ہی کی ایک صورت ہے۔ یعنی شاذ روایت صحیح ہوتی ہے لیکن ثقات یا اوثق کی روایت کے بالمقابل منفرد، قلیل، نادر ہونے کی وجہ سے متروک العمل ہوجاتی ہے۔۳۹؎ المختصر ہم کہہ سکتے ہیں کہ فن حدیث میں شاذ اور ضعیف روایت میں اہل فن فرق کرتے ہیں ۔ ’شاذ ‘ کی حقیقت واضح ہوجانے کے بعد اب ہم ’شاذ حدیث‘ کی فن حدیث سے متعلقہ عام تفصیلات پیش کرتے ہیں ۔ ’شاذ روایت‘ کی تعریف ٭ اِمام سخاوی رحمہ اللہ ( م ۹۰۲ھ) شاذ کی تعریف میں رقم طراز ہیں : ما یخالف الراوی الثقۃ فیہ بالزیادۃ أو النقص فی السند أو فی المتن الملإ أی الجماعۃ الثقات من الناس بحیث لا یمکن الجمع بینہما ۴۰؎ ’’ الفاظ حدیث کی زیادتی یا کمی میں ثقہ راوی، ثقہ جماعت کی مخالفت کرے اور دونوں کے درمیان جمع ممکن نہ ہو۔ یہ مخالفت کبھی سند ارو کبھی متن میں ہوتی ہے۔‘‘ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) فرماتے ہیں : ’’ شذوذ یہ ہے کہ ثقہ راوی اپنے سے زیادہ ثقہ یا ثقات کی ایک جماعت کی مخالفت کرے ۔ اوثق یا ثقات کی روایت کو محدثین عظام رحمہم اللہ ’محفوظ‘ اور ثقہ کی روایت کو ’شاذ‘ کہتے ہیں ۔‘‘ ۴۱؎ شاذ روایت کی تعریفات اگر چہ اس کے علاوہ بھی کی گئی ہیں ، البتہ راجح تعریف شاذ کی وہی ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔ اسی تعریف کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ترجیح دی ہے۔۴۲؎ ’شاذ ‘ کی دو صورتیں ہوتی ہیں : 1۔ سند میں شذوذ 2۔ متن میں شذوذ اس فصل میں ہم ’شاذّ فی المتن‘ کے موضوع پر بحث کریں گے، جبکہ ’شاذّ فی السند‘ پر بحث پہلی فصل میں گذر چکی ہے۔ ’شاذ ‘ کی بحث کو محدثین کرام رحمہم اللہ مخالفت الثقات کی بحث کے ضمن میں لاتے ہیں ، کیونکہ ثقہ اور اوثق یا ثقہ اور ثقات کے اختلاف |