بظاہر وہ صحیح وسالم نظر آتی ہو، ایسی روایت کو معلول کہا جاتا ہے۔ ۱۸۶؎ دراصل معلول روایت کا تعلق وہم الراوی سے ہے یعنی راوی وہم کے ساتھ روایت آگے بیان کر دیتا ہے، لہٰذا کبھی موقوف کو مرفوع اور کبھی مرسل کو مسند بیان کر دیتا ہے اور کبھی ایک حدیث کو دوسری کے ساتھ خلط ملط کر دیتا ہے ۔ ۱۸۷؎ ان مخفی علتوں کا علم صرف علم حدیث کے اُن ماہرین کو ہی ہوتا ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اسانید ومتون میں مہارت ِتامہ ، قوت ِ حافظہ اور روشن دماغی جیسے اوصاف سے نوازا ہوتا ہے ۔ وہ روایات کی اسانید جمع کرتے ہیں اور رواۃ کے احوال میں غوروفکر کرتے ہیں ، پھر اس مخفی سبب تک پہنچتے ہیں جو صحت ِحدیث کو متاثر کر رہا ہوتاہے۔ ’علل حدیث‘ کا علم نہایت دقیق علم ہے ، اسی وجہ سے بہت کم ائمہ حدیث نے اس کے بارے میں کام کیا ہے ۔ اس علم کے ماہرین میں اِمام علی بن مدینی (م ۲۳۴ ھ) ، اِمام احمد بن حنبل (م ۲۴۱ ھ) ، اِمام بخاری (م ۲۵۶ ھ) ، اِمام ابوحاتم (م ۳۲۷ ھ) ، اِمام ابوزرعہ(م ۲۶۴ ھ) ، اِمام دارقطنی(م ۳۸۵ ھ) ،اِمام ابویعلی (م ۳۰۷ ھ)،اِمام ترمذی (م ۲۷۹ ھ) اور اِمام حاکم رحمہم اللہ (م ۴۰۵ ھ) وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ علت کبھی متن میں ہوتی ہے ، کبھی سند میں اور کبھی سندومتن دونوں میں ہوتی ہے۔ متن اور سندومتن دونوں میں علت کا بیان آئندہ فصل میں آئے گا، البتہ صرف سند میں علت کا بیان حسب ذیل ہے ۔ علت فی السند جس روایت کی سند میں علت ہو (یعنی صرف سند متاثر ہو متن متاثر نہ ہو) اسے معلل فی السند کہا جاتا ہے ۔ سند میں علت کی مثال یہ روایت ہے : عن یعلی بن عبید عن سفیان الثوری عن عمرو بن دینار عن ابن عمر عن النبی صلي اللّٰه عليه وسلم قال (( البیعان بالخیار ما لم یتفرقا)) ’’یعنی دو سودا کرنے والوں کو اس وقت تک اختیار ہے جب تک وہ جدا نہ ہو جائیں ۔ ‘‘ اس روایت میں علت ’عمرو بن دینار رحمہ اللہ (م ۱۲۶ ھ) ‘میں ہے ، درحقیقت یہ عبد اللہ بن دینار رحمہ اللہ (م ۱۲۷ ھ)ہے ۔ یعلی بن عبید رحمہ اللہ (م۲۰۹ ھ) کو وہم ہوا ہے اور اس نے عمرو بن دینار رحمہ اللہ (م ۱۲۶ ھ) کی جگہ عبد اللہ بن دینار رحمہ اللہ (م ۱۲۷ ھ)کا ذکر کر دیا ہے اور دونوں ہی ثقہ ہیں ۔ اس غلطی کی وجہ سے یہ سند معلول ہے، لیکن متن دیگر صحیح اسانید سے مروی ہونے کی وجہ سے معتبر ہے۔۱۸۸؎ ........٭٭٭........ |