اللہ کے ہاں اگر ہم مقہور ومعتوب ہوتے تو مال واولاد کی نعمت ہمیں میسر نہ آتی۔ حالاں کہ یہ مال واولاد، اور یہ آرام وآسائش تو فتنہ ہے۔ ان کے مقابلے میں مومن تمام نعمتوں کو اللہ کی ہی عطا سمجھتا ہے اور اس کا شکر وسپاس بجا لاتا ہے۔ سیّدِ کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتحِ مکہ کے موقعہ پر اپنی حکمتِ عملی یا اپنے رفقاء کی وفا شعاری اور قوت بازو کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ سر جھکائے ہوئے فرمائے جارہے تھے۔ ’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ نَصَرَ عَبْدَہٗ وَصَدَقَ وَعْدَہٗ وَہَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ ‘[1] ’’سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے اپنے بندے کی مدد کی، اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور اس اکیلے نے ہی تمام لشکروں کو مار بھگایا۔‘‘ یہی اعتراف حقیقی ذکرِ نعمت اور شکرِ نعمت ہے۔ اسی کا اظہار بعد کے الفاظ میں ہے: ﴿ہَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰہِ﴾ کہ کیا اللہ کے سوا کوئی پیدا کرنے والا ہے۔ ’’من‘‘ زائدہ ہے خالق مبتدا ہے، یعنی ﴿ہَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰہِ﴾کیا اللہ کے علاوہ کوئی خالق ہے؟[2] امام رازی رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں اس میں ’’نعمتِ ایجاد‘‘ کا اشارہ ہے کہ ان نعمتوں کا کوئی اور موجد ہے؟ بلکہ اللہ تعالیٰ ہی سب کا خالق ہے نعمتوں کا موجد بھی وہی ہے اور وہی عبادت کا مستحق ہے۔ جیسا کہ سورۃ البقرہ میں دعوتِ توحید کا عنوان یہی ہے: ﴿یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن ﴾[3] ’’اے لوگو! اپنے ربّ کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پہلے تھے، تاکہ تم بچ جاؤ۔‘‘ |