Maktaba Wahhabi

36 - 313
صرف کرے گا۔ اولاد طلب کرتا ہے تواس لیے کہ اسے دین کے زیور سے آراستہ کرے گا اور دین کا خدمت گزار بنائے گا۔ صحت طلب کرتا ہے کہ بحسن وخوبی اس کی بندگی کرسکے اور ضرورت پڑے تو اس کے دین کے لیے جہاد کرسکے۔ الغرض یہ اللہ کا سائل ہے اور اللہ کے لیے سائل ہے جو طلب کرتا ہے وہ اللہ کی رضا جوئی کے لیے اور اس کے دین کی خدمت گزاری کے تناظر میں مانگتا ہے اور پکار اٹھتا ہے: اِلٰہِیْ اَنْتَ مَقْصُوْدِیْ وَرِضَاکَ مَطْلُوْبِیْ۔ ‘ الحمد للہ کہنا بہت بڑی نعمت: اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس قدر انعامات سے نوازا ہے کہ انہیں حیطۂ شمار میں لانا مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لاَ تُحْصُوْہَا ﴾[1] ’’اگر تم اللہ کی نعمت شمار کرو تو اسے شمار نہ کر پاؤگے۔‘‘ جب انعامات کا شمار وقطار ہی نہیں تو ان کی شکر گزاری کیوں کر ہوسکتی ہے؟ یہ انعامات تو شکمِ مادر سے آخری سانسوں تک بے شمار ہیں اس لیے ان کی شکر گزاری کا حق کیوں کر ادا ہوسکتا ہے۔ حضرت عتبہ بن عبد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَوْ أَنَّ رَجُلًا یَجُرُّ عَلٰی وَجْہِہِ مِنْ یَوْمٍ وُلِدَ إِلٰی یَوْمٍ یَمُوْتُ ہَرَمًا فِیْ مَرْضَاۃِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ لَحَقَّرَہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ [2] ’’اگر کوئی شخص اپنی پیدائش سے بڑھاپے میں موت تک اللہ کی رضا کے لیے سر بسجود رہے تو قیامت کے روز اسے بھی حقیر جانے گا۔‘‘ اس لیے اللہ تعالیٰ کے احسانات وانعامات کی شکر گزاری ہو ہی نہیں سکتی۔ ایک
Flag Counter