سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ علامہ طحاوی رحمہ اللہ نے العقیدۃ الطحاویہ[1] میں فرمایا ہے۔ اسی طرح تمام سلف امت ،تابعین کرام، ائمۂ محدثین وفقہاء اور تمام اہل اللہ کا ذکر خیر سے کرتے ہیں۔ ان کی دینی خدمات اور ان کے عمل واخلاص کا حسبِ علم اعتراف اور اظہار کرتے ہیں۔ اور اجمالاً حسن ظن رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز انہیں سرخرو فرمائے گا۔ لیکن کسی کے نام بنام جنت جانے کا اعلان واظہار سے اسی لیے گریز کرتے ہیں کہ ﴿ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقیٰ﴾ کا یہی تقاضا ہے۔ علامہ طحاوی رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہے ’ وَلَا نُنَزِّلُ اَحَداً مِنْہُمْ جَنَّۃً وَلَا نَاراً‘ ’’ہم کسی کے بارے میں نہ جنت جانے کی بات کرتے ہیں نہ ہی جہنم جانے کی۔‘‘ مگر ہائے افسوس! آج تو کچھ کر نہ پانے کے باوجود بھی اپنی تعریف کے ہم متمنی ہوتے ہیں۔ اپنے ناموں کے سابقے اور لاحقے کے متلاشی ہوتے ہیں۔ بلکہ تعریف و توصیف کے لیے اپنے احباب ساتھ رکھتے ہیں اور پھر ان کی تعریف پر پھولے نہیں سماتے۔انا للہ وانا الیہ راجعون الحمد للہ کی فضیلت: اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تعریف اور حمد وثنا کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث مبارکہ ہیں۔ ہم یہاں چند احادیث ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ ۱: حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’اَلطَّہُوْرُ شَطْرُ اْلِایْمَانِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَاُ الْمِیْزَانَ، وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَآنِ أَوْ تَمْلَاُ مَا بَیْنَ السّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ‘الحدیث [2] ’’طہارت وپاکیزگی ایمان کا حصہ ہے، اور ’’الحمد للہ‘‘ میزان کا پلڑا بھر دیتا ہے، سبحان اللہ اور الحمد للہ، دونوں (آسمان اور زمین) بھر دیتے ہیں یا یہ فرمایا:بھردیتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین کے مابین ہے۔‘‘ |