’’سلام ہو تم پر اس کے بدلے جو تم نے صبر کیا، سو اچھا ہے اس گھر کا انجام۔‘‘ میں نے کہا: آپ وہی صاحب ہیں؟ کہنے لگے: ہاں۔ میں نے کہا یہ مقام کیسے حاصل ہوا؟ فرمانے لگے: ’ اِنَّ لِلّٰہِ دَرَجَاتٍ لاَ تَنَالُ اِلَّا بِالصَّبْرِ عِنْدَ الْبَلَائِ، وَالشُّکْرِ عِنْدَ الرَّخَائِ مَعَ خَشْیَۃِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فِی السِّرِّ وَالْعَلَاِنِیَۃِ ‘ ’’اللہ کے ہاں بہت سے درجات ہیں جنہیں مصائب میں صبر کرنے، آسائش میں شکر بجا لانے اور ساتھ ساتھ ظاہر وباطن اللہ سے ڈرتے رہنے سے حاصل ہوتے ہیں۔‘‘ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے یہ قصہ الثقات[1] میں امام ابوقلابہ رحمہ اللہ کے ترجمہ میں ذکر کیا ہے۔ (ج:۵، ص:۳،۵) اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے سیر اعلام النبلاء[2] میں بھی اختصاراً اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر حال میں ہمیں بھی اپنی حمد اور اپنے شکر کی توفیق عطا فرمائے اور آفات وبلیات سے محفوظ رکھے۔ اور ہمیں کسی آزمائش وامتحان میں مبتلا نہ کرے۔ اور اپنی بخشش ومغفرت سے نوازے، آمین۔ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض حمد وثنا، شکر وسپاس اس اللہ کے لیے جو آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے۔ ’’فاطر‘‘ یہ ’’فطر‘‘ سے اسم فاعل ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اسمائے صفاتیہ میں سے ایک اسم مبارک ہے۔ ’’فَطْرٌ ‘‘ پھٹن ،شگاف کے ہیں۔ اسی سے اس کی جمع ’’فطور‘‘ ہے۔ |