تسلیم کروائیں۔ ﴿فَذَکِّرْ قف ط اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ ﴾ [1] ’’پس نصیحت کر، تو صرف نصیحت کرنے والا ہے، تو ہرگز ان پر کوئی مسلط کیاہوا نہیں ہے۔‘‘ آپ کا کام خبردار کرنا اور نصیحت کرنا ہے منوانا اور ہدایت دینا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ مسئلۂ سماع موتی: یہاں ﴿وَ مَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ ﴾ میں فرمایا گیا ہے کہ ’’آپ ہرگز انہیں سنانے والے نہیں جو قبروں میں ہیں‘‘ اسی طرح سورۃ النمل اور الروم میں فرمایا ہے کہ ﴿اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی﴾ آپ مردوں کو نہیں سناتے۔ ان آیات کا مصداق کفار ہیں اور یہاں سنانے سے مراد وہ سنانا ہے جو مفید اور نافع ہو۔ اسی سے بعض حضرات نے سمجھا ہے کہ ان آیات میں قبروں میں دفن ہونے والوں، اور فوت ہوجانے والوں سے سماع کی نفی نہیں۔ بلکہ خاص اسماعِ نافع کی نفی ہے کہ جیسے آپ مردوں کو کلام سنا کر راہِ راست پر نہیں لاسکتے اسی طرح کفار کو بھی راہِ راست پر نہیں لاسکتے۔ مگر یہ موقف درست نہیں۔ کیوں کہ زندگی کے بعد موت ہے اور زندہ اور مردہ انسان برابر نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا ہے کہ اللہ جسے چاہے سنا دے، وہ مردہ ہو یا بت ہو یا پتھر ہو۔ کیوں کہ یہ بالفعل نہیں سنتے اللہ چاہے تو سنا دے مگر آپ قبروں والوں کو ہرگز سنانے والے نہیں۔ اس میں میت سے سماع کی نفی ہے۔ سویا ہوا انسان اپنے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کی باتیں نہیں سنتا، کیوں کہ وہ عالم خواب میں ہے تو عالم برزخ میں چلے جانے والے اہلِ دنیا کی بات کیوں کر سن سکتے ہیں؟ اس لیے میت سے سماع کی نفی کرکے کفار کو ان سے تشبیہ دی گئی ہے۔ مشبہ بہ میں |