میں وجۂ شبہ اتم ہوتی ہے اور تشبیہ میں ناقص کو من وجہ کامل کے ساتھ ملانا مقصود ہوتا ہے۔ اس لیے میت تو بالفعل سنتی نہیں اور کفار بھی نہیں سنتے کہ ان میں سمع نافع نہیں صرف آواز سنتے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ جیسے کہا جائے کہ فلاں شیر کی طرح ہے تو یہاں اس آدمی کو شیر کی بہادری سے تشبیہ دی گئی کہ کامل شجاعت اور بہادری تو شیر کی ہے۔ اسی طرح کفار کو عدمِ سماع کے لیے مُردوں سے تشبیہ دی ہے تو کامل نفی مُردوں سے سماع کی ہے جیسے وہ نہیں سنتے اسی طرح کفار بھی نہیں سنتے، یہ صرف آواز سنتے ہیں جس کا کوئی فائدہ انہیں حاصل نہیں ہوتا۔ مزید غور کیجیے کہ جیسے میت سے سماع کی نفی ہے بعد کی آیت میں بہروں سے سماع کی نفی ہے کہ ﴿وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآئَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ﴾ ’’اور نہ تو بہروں کو اپنی پکار سناتا ہے جب وہ پیٹھ پھیر کر پلٹ جائیں۔‘‘ یہاں بھی بہروں سے سماع کی نفی ہے۔ میت کی طرح بہرا بھی نہیں سنتا۔ یوں نہیں کہ بہرا سنتا ہے مگر سماعِ نافع نہیں سنتا۔ بہرے میں سماع کی کامل نفی ہے اور اُس سے کافر کو تشبیہ دی ہے کہ وہ بھی نہیں سنتا، مگر کافر کا نہ سننا سماع نافع مراد ہے۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: وقولہ ﴿وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآئَ﴾ یَقُوْلُ کَمَا لَا تَقْدِرُ أَنْ تُسْمِعَ الصُّمَّ الَّذِیْنَ قَدْ سُلبْوا السَّمْعَ اِذَاھم وَلَّوْا عَنْکَ مُدْبِرِیْنَ، کَذٰلِکَ لَا تَقْدِرُ اَنْ تُوَفِّقَ ہٰؤُلَائِ، الَّذِیْنَ قَدْ سَلَبَہُمُ اللّٰہُ فَہْمَ آیَاتِ کِتَابِہٖ لِسِمَاعِ ذٰلِکَ وَفَہْمِہٖ ‘[1] ’’اللہ تعالیٰ کے فرمان: کہ ’’تم بہرے کو اپنی پکار نہیں سناتے‘‘ سے یہ مراد ہے کہ جیسے آپ بہروں کو جب وہ منہ موڑ کر چلے جائیں جن کی سماعت سلب کر لی گئی ہے، سنانے پر قادر نہیں اسی طرح ان کفار کو بھی، جن سے |