ومواخذے کی نفی مراد نہیں۔ سنۃ اللہ کا مفہوم اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس آیت میں جو یہ فرمایا ہے کہ آپ اللہ کی سنت کو، اللہ کے طریقے کو بدل دینے کی کوئی صورت نہ پائیں گے۔سیاقِ کلام سے اس کامفہوم بالکل واضح ہے۔ اس مفہوم میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ بنی اسرائیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے تناظر میں،جب قریشِ مکہ آپ کو مکۂ مکرمہ سے نکالنے کی فکر میں تھے،فرماتے ہیں: ﴿وَإِن کَادُوْا لَیَسْتَفِزُّونَکَ مِنَ الأَرْضِ لِیُخْرِجُوْکَ مِنْہَا وَإِذاً لاَّ یَلْبَثُوْنَ خِلافَکَ إِلاَّ قَلِیْلاً سُنَّۃَ مَنْ قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنْ رُّسُلِنَا وَلاَ تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیْلاً ﴾[1] اور بے شک وہ قریب تھے کہ تجھے ضرور ہی اس سرزمین سے پھسلا دیں،تاکہ تجھے اس سے نکال دیں اور اس وقت وہ تیرے بعد نہیں ٹھہریں گئے مگر کم ہی۔ ان کے طریقے(کی مانند) جنھیں ہم نے تجھ سے پہلے اپنے رسولوں میں سے بھیجا اور توہمارے طریقے میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا۔‘‘ منافقین اور ان کے ہمنوؤں کے بارے میں فرمایا گیا ہے اگر یہ اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو ہم تمھیں ان پر مسلط کر دیں گے وہ مدینہ میں نہیں رہ سکیں گے ان پر لعنت ہو گی وہ جہاں بھی ہوں گے(بھاگ نہیں سکیں گے) پکڑے جائیں گے اور بری طرح ان کے ٹکڑے ٹکڑے کیے جائیں گے۔پھر فرمایا: ﴿سُنَّۃَ اللَّہِ فِیْ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللَّہِ تَبْدِیْلاً﴾[2] |