کے جواب میں ایک تو یہی بات فرمائی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے عذاب نہیں آئے گا۔ دوسرا جواب یہ کہ جب تک وہ توبہ واستغفار کرتے رہیں تب بھی عذاب نہیں آئے گا، چنانچہ مکۂ مکرمہ میں ہجرتِ مدینہ کے بعد ایک تو وہ ضعفاء صحابہ کرام تھے جو استغفار کرتے تھے، دوسرے خود مشرکین تھے جو طواف کے دوران میں ’’غفرانک غفرانک‘‘ کہتے تھے۔ (ابن ابی حاتم، ابن کثیر: ۲؍۴۰۳) اس لیے ان پر سابقہ امتوں کی طرح کا عذابِ استیصال تو نہیں آیا، البتہ صحابۂ کرام کے ہاتھوں وہ تہ تیغ ہوئے اور ان کا غرور خاک میں مل گیا۔ یہاں بھی ان کے اسی مطالبۂ عذاب کے تناظر میں فرمایا گیا ہے کہ وہ کیا سابقہ امتوں کے انجام کی طرح اسی سنت اللہ کے انتظار میں ہیں کہ اگر وہ تباہی وبربادی سے دوچار ہوئے ہیں تو رسول کی تکذیب میں یہ بھی تباہ کردیے جائیں، سن لو ﴿فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اﷲِ تَبْدِیْلًا﴾ اللہ کے طریقے کو بدل دینے کی اور پھیر دینے کی کوئی صورت نہیں۔ یہ آج بھی اسی طرح جاری وساری ہے جیسے پہلے تھا۔ جب وہ وقت آئے گا تو نہ کوئی اسے روک سکے گا اور نہ ہی اس کا رخ بدل سکے گا۔ جو مستحق ہوگا وہی پکڑا جائے گا اور اپنے عمل کی سزا پائے گا: ﴿وَ اِذَٓا اَرَادَ اللّٰہُ بِقَوْمٍ سُوْأً فَلَا مَرَدَّ لَہٗ ﴾ [1] ’’اور جب اللہ کسی قوم کے ساتھ برائی کا (ان کے بُرے انجام کا) ارادہ کرلے تو اسے ہٹانے کی کوئی صورت نہیں۔‘‘ اس لیے یہ ابھی تک بچے ہوئے ہیں تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے طریقے اور فیصلے کے مطابق بچے ہوئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان میں جیتے جی کسی کو عذاب نہیں دیا جائے گا اور جب تک استغفار کرتے رہیں گے تب بھی عذاب نہیں آئے گا۔ ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں کہ جس عذاب کی نفی کا ذکر ہے وہ عذابِ استیصال ہے جس میں پوری منکر قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ جزوی اور کم تر درجے کے عذاب |