پتھر برسا یا ہم پر کوئی دردناک عذاب لے آ۔‘‘ مشرکین کے تمرد وعناد کی حد دیکھیے کہ یہ نہیں کہتے کہ اگر یہی حق ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں اور واقعی اللہ کے سوا کوئی معبود اور حاجت روا نہیں تو ہماری حق کی طرف راہنمائی فرما اور اس کی اتباع کی توفیق عطا فرما بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم پر عذاب مسلط کردے اور آسمان سے پتھروں کی بارش برسا کے ہمیں نیست ونابود کردے۔ ہم یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ تیرا کوئی شریک نہیں۔ ان بزرگوں کی یوں توہین ہمارے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿وَ یَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالْعَذَابِ وَ لَوْ لَآ اَجَلٌ مُّسَمًّی لَّجَآئَہُمُ الْعَذَابُ﴾ [1] ’’اور وہ تجھ سے جلدی عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر ایک مقرر وقت نہ ہوتا تو ان پر عذاب ضرور آجاتا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کے مطالبۂ عذاب کے باوجود عذاب میں تاخیر اس لیے ہے کہ میرا رسول ان میں موجود ہے اور ہمارا ضابطہ اور اصول یہ رہا ہے: ﴿وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَ اَنْتَ فِیْہِمْ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمْ وَ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ ﴾ [2] ’’اور اللہ کبھی ایسا نہیں کہ انھیں عذاب دے جب کہ تُو ان میں ہو اور اللہ انھیں کبھی عذاب دینے والا نہیں جب کہ وہ بخشش مانگتے ہوں۔‘‘ تمام انبیائے کرام کی امتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہی دستور رہا کہ جب تک وہ اپنی امت میں موجود رہے عذاب سے بچے رہے جیسے حضرت ہود، حضرت صالح اور حضرت لوط اور ان کی امتیں۔ مشرکینِ مکہ کے مطالبۂ عذاب |