’’امیین‘‘ کہا گیا ہے اور یہود ان کی اس برتری وبزرگی پر معترض بھی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی مخالفت کا سب سے بڑا سبب بھی یہی تھا مولانا اصلاحی کی یہی رائے ہے جس کی انھوں نے تفصیلاً تائید کی ہے۔مگر یہ تفسیر احادیث اور تفسیر سلف کے منافی ہے۔ گواس بات کی گنجائش ہے کہ اس سے مراد بنواسماعیل ہوں کہ ان میں بعض ظلم یعنی کافر رہے اور بعض مقتصدین اور بعض سابقین قرار پائے ۔تو اس تاویل کی بھی گنجائش ہے۔ بلکہ مولانا اصلاحی نے تو اسی رائے کو درست قرار دیا ہے اور تفصیلاً اس کی تائید کی ہے۔ ظالم کو پہلے ذکر کرنے کی توجیہات: سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت میں ظالم کو پہلے کیوں ذکر کیا گیا ہے حالاں کہ پہلے اس کا ذکر کیا جانا چاہیے جو شرف وفضل میں مقدم ہے۔ تو اس کے علمائے کرام نے متعدد جوابات دئیے ہیں۔ ۱: کسی چیز کا پہلے ذکر ہونا اس کی فضیلت کو مستلزم نہیں جیسے سورۃ الحشر(۲۰) میں دوزخیوں کا ذکر پہلے آیا ہے۔ ﴿ لاَ یَسْتَوِیْ اَصْحٰبُ النَّارِ وَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ﴾[1] یا جیسے الشوریٰ[2] میں ہے: ﴿یَہَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ اِنَاثًا وَّ یَہَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ الذُّکُوْرَ﴾ ۲: ظالموں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح مقتصدین یعنی متوسطین، سابقین سے زیادہ ہوتے ہیں۔ گویا جن کی تعداد زیادہ ان کا پہلے ذکر ہے۔ یہ توجیہ علامہ زمخشری نے کی ہے۔ ۳: ظالم کو اس لیے پہلے ذکر کیا تاکہ وہ اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو اور سابق کو مؤخر اس لیے کیا وہ اپنے عمل کے بارے میں خود پسندی کا شکار نہ ہو۔ ۴: حضرت جعفر صادق نے فرمایا ہے کہ ظالم کا پہلے ذکر کیا تاکہ بتلایا جائے کہ اللہ کی رحمت اور اس کے کرم کے بغیر نجات کی کوئی راہ نہیں اور اس کی کرم نوازی ہو تو ظلم اللہ کی پسندیدگی میں مانع نہیں، پھر مقتصدین کا ذکر ہے جن کا معاملہ |